• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے روس کی سرکاری ایجنسی کو دئیے گئے انٹرویو کے ذریعے ایک بار پھر نئی دہلی کو نہ صرف امن کی پیش کش دہرائی ہے بلکہ پاک بھارت تنازعات طے کرنے کے لئے روس سمیت کسی کی بھی ثالثی کے لئے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ نئی دہلی کی طرف سے اس کا مثبت جواب آتا مگر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایکو سربراہ کانفرنس کی سائڈ لائن پر چینی صدر سے ملاقات میں پاکستانی پیش کش سے گریز کے لئے یہ موقف اختیار کیا کہ امن بات چیت کے لئے اسلام آباد کو دہشت گردی سے پاک فضا قائم کرنا ہوگی۔ اس طرزعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید خطے میں قیام امن صرف پاکستان کی ضرورت ہے جبکہ رقبے اور آبادی دونوں اعتبار سے کئی گنا بڑے ملک بھارت کے باسیوں کو امن کی صورت میں وہ بہت سی سہولتیں مل سکتی ہیں جو کشیدگی کے باعث ہتھیاروں کی دوڑ کی نذر ہو رہی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں غیرملکی استعمار کی رخصت کے وقت جس ملک کے طاقتور حلقے دنیا کے نقشے پر ابھرنے والے نئے ملک کے اختتام کی تاریخیں دیتے رہنے کی سوچ کے حامل ہیں اور جنہوں نے اس کا مشرقی بازو کاٹنے کے بعد باقی ماندہ ملک کو بھی کلبھوشن یادیو جیسے ایجنٹوں کے نیٹ ورک کے ذریعے نقصان پہنچانے کی کوششوں کا سلسلہ طویل عرصے تک جاری رکھا ہو، اس کے جنگ پسند حلقے کوئی بھی ایسا طرز عمل کیوں کر گوارا کر سکتے ہیں جس سے خطے میں کشیدگی کا جواز ختم ہو۔ مذکورہ عناصر کے ہاتھوں پاکستان دشمن ایجنڈے پر کام جاری رکھتے ہوئے پاکستان ہی کو مورد الزام ٹھہرانے کا یہ سلسلہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں شاید مزید کارگر نہ رہے۔ خطے کے تمام ملکوں کے امن پسند حلقوں پر نئی دہلی کے حکمرانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ امن بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل میں ہی خطے کے ڈیڑھ ارب افراد کے اچھے دنوں کے خوابوں کی تعبیر مضمر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھارتی وزیر اعظم کو کئی خطوط اور بیانات کے ذریعے امن بات چیت کی پیش کش کرچکے ہیں اور اب انہوں نے بشکک میں روسی صدر ولا دیمیر پیوٹن سے جو غیررسمی ملاقات کی، قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس میں ماسکو کی طرف سے کچھ عرصے قبل آنے والی ثالثی کی پیش کش پر بھی بات کی گئی ہوگی۔ قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان نہ تو اپنی سرزمین سے کسی کو دوسرے ملک میں دہشت گردی کی اجازت دے گا نہ ہی کسی دوسرے ملک سے اپنی سرزمین پر کی جانے والی دہشت گردی برداشت کرے گا۔ مذکورہ عزم کی قوت اور پاکستان کی امن دوستی کا اظہار پچھلے ہفتوں کے دوران عالمی برادری کے سامنے آ بھی چکا ہے۔ پاکستان میں مختلف ناموں سے کام کرنے والی بعض تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون بھی کیا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں مزید اقدامات ہورہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ایکو سربراہ کانفرنس میں شرکت کے اس موقع پر کشیدگی کم کرنے کی سمت کوئی بڑی مثبت پیش رفت سامنے آتی۔ وزیر اعظم عمران خان اور صدر ولادیمیر پیوٹن کی حالیہ ملاقات اور ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان روابط کو دیکھتے ہوئے آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ممالک سرد جنگ کی دہائیوں کی صورتحال سے باہر آکر دفاع اور تجارت سمیت کئی شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیں۔ روس وہ ملک ہے جہاں توانائی کی فراوانی ہے اور وہ توانائی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پاکستان کی مدد کرسکتا ہے۔ ماسکو پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کیلئے امن مذاکرات میں سہولت کاری اور ثالثی کی بھی پیشکش کرچکا ہے۔ واشنگٹن بھی جو افغانستان میں قیام امن کے لئے اسلام آباد کی کوششوں کا معترف ہے، جنوبی ایشیا کے دو اہم ملکوں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کردار ادا کرے تو اس وقت کے قریب آنے کی امید بڑھ جائے گی جب پاکستان اور بھارت ہی نہیں تمام سارک ممالک کے عوام امن و آشتی کی فضا میں ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہوں گے۔

تازہ ترین