• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالاخر آئی ایم ایف کی شرائط پر مبنی قومی بجٹ 2019-20کا اعلان کردیا گیا۔ بجٹ سے پہلے ہی پاکستان کی بزنس کمیونٹی، ایف پی سی سی آئی، چیمبرز اور مختلف ایسوسی ایشنز نے بے شمار میٹنگز میں واضح الفاظ میں حکومت کو بتادیا تھا کہ اگر آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے بجٹ کا اعلان کیا گیا تو وہ ملکی معیشت، صنعت اور ایکسپورٹس کیلئے نہایت نقصاندہ ثابت ہوگا۔ اس سلسلے میں، میں نے صدر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت و ٹیکسٹائل عبدالرزاق دائود، ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی، وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر، گورنر سندھ عمران اسماعیل اور قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI)کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی ملاقاتوں میں بجٹ تجاویز میں بتایا تھا کہ اگر حکومت نے 5ایکسپورٹ سیکٹرز سے سیلز ٹیکس کی زیرو ریٹڈ سہولت ختم کی، ایکسپورٹ صنعتوں کیلئے بجلی اور گیس کے نرخوں میں سبسڈی ختم کرکے اضافہ کیا گیا اور ایکسپورٹ سیکٹرز جنکی مجموعی پیداوار کا 80فیصد ایکسپورٹ ہوجاتا ہے، کو فکس ٹیکس نظام سے خارج کیا گیا تو یہ حکومتی اقدامات گرتی ہوئی ایکسپورٹس پر نہایت منفی اثرات ڈالیں گے، جو آنیوالے وقت میں مزید گرے گی۔ کراچی میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں، میں نے بتایا کہ رواں مالی سال رئیل اسٹیٹ کا کاروبار نہایت سست روی کا شکار ہے جسکی وجہ جائیداد کی سرکاری اور مارکیٹ قیمت میں فرق، جائیداد منتقلی پر وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ایڈوانس ٹیکس اور دیگر اضافی ٹیکسز، ایف بی آر اور نیب کا خوف و ہراس ہے۔ میں نے وزیراعظم اور مشیر تجارت کو مشورہ دیا کہ ملکی معاشی سرگرمیاں بڑھانے، نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور اضافی ریونیو وصولی کیلئے وہ جائیداد کی سرکاری اور مارکیٹ قیمت یکساں کردیں مگر جائیداد کی منتقلی کی ٹیکس کی شرح کم کرکے 2فیصد کی جائے، جس سے لوگ اصل قیمت پر جائیداد کی رجسٹری کروا سکیں۔ اس طریقے سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کالا دھن بننا ختم یا کم ہوجائیگا اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں معاشی سرگرمیوں کے فروغ سے حکومت کو اضافی ریونیو بھی حاصل ہونگے۔ مجھے خوشی ہے کہ وزیراعظم اور ایف بی آر نے اس تجویز پر اتفاق کرتے ہوئے جائیداد کی خرید و فروخت کیلئے بجٹ میں اہم اقدامات کئے، نہیں تو رئیل اسٹیٹ کے کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے ہمیں ہر سال نئی ایمنسٹی اسکیم لانا پڑتی۔

حکومت کے جاری شدہ معاشی سروے اور بجٹ میں پہلی بار پاکستان کی تاریخ میں حکومت تمام اہم معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ حکومت کا آئندہ مالی سال 5550ارب روپے ریونیو ہدف غیر عملی اور غیر حقیقی ہے کیونکہ 3سے 4فیصد جی ڈی پی گروتھ سے آئندہ سال ملکی معاشی سرگرمیاں محدود ہونگی۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کو یہ ٹاسک سونپا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے کئے گئے ریونیو ہدف کو پورا کریں۔ آنیوالا بجٹ ٹیکنو کریٹس اور پروفیشنلز نے مل کر بنایا ہے جس میں ایکسپورٹس میں اضافہ، نئی صنعتکاری، ملازمتوں کے مواقع، مہنگائی پر قابو، معاشی بحالی اور صنعت و تجارت کے فروغ کیلئے اقدامات ریونیو وصولی کے مقابلے میں کم نظر آتے ہیں۔ رواں مالی سال حکومت نے 6.3فیصد ہدف کے مقابلے میں بمشکل 3.3 فیصد جی ڈی پی گروتھ حاصل کی ہے اور آئندہ سال 4 فیصد کا ہدف رکھا ہے جبکہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے آئندہ سال پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 3.29فیصد کی پیش گوئی کی ہے۔ صنعتی شعبے میں 7.6فیصد ہدف کے مقابلے میں صرف 1.4 فیصد گروتھ ہوسکی ہے حالانکہ صنعتی شعبے کو انرجی کی فراہمی بلاتعطل جاری رہی۔ بڑے درجے کی صنعتوں (LSM) میں 8.1فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 2فیصد گروتھ رہی۔ سروس سیکٹر میں بھی گروتھ 6.5فیصد ہدف کے مقابلے میں 4.7فیصد رہی۔ تعمیرات کے شعبے میں بھی گروتھ 10فیصد ہدف کے مقابلے میں 7.6 فیصد رہی۔ صنعتی سیکٹر کی گروتھ 7.6فیصد کے مقابلے میں 1.4 فیصدرہی۔ آئی ایم ایف کے بیل آئو ٹ پروگرام میں تاخیر کے باعث بے یقینی صورتحال کی وجہ سے صنعت اور تعمیرات کے شعبوں کی کارکردگی متاثر ہوئی۔ صرف لائیو اسٹاک سیکٹر نے 3.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں 4 فیصد گروتھ حاصل کی جس کا کریڈٹ 2013ء کی لائیو اسٹاک انشورنس اسکیم کو جاتا ہے۔ زراعت کے اہم شعبے میں مایوس کن کارکردگی رہی اور حکومت تمام ربیع کی فصلوں میں اہداف حاصل نہیں کرسکی۔ زرعی شعبے کی گروتھ 3.8فیصد ہدف کے مقابلے میں صرف 0.8فیصد رہی۔ توقع کی جارہی ہے کہ پاکستان مالی سال 2018-19ء میں گیہوں کا 25.8 ملین ٹن پیداوار کا ہدف حاصل نہیں کرسکے گا۔ اسی طرح کاٹن کے 10.8ملین بیلز کے ہدف میں 12.7فیصد کمی اور چاول کا 7.1ملین ٹن کے ہدف میں 3.3فیصد کمی آئی ہے جبکہ گنے کی فصل کے 68.25ملین ٹن کے ہدف میں 19.4فیصد کمی آئی ہے۔ معیشت کے تمام شعبوں میں مایوس کن کارکردگی لمحہ فکریہ ہے۔ سابقہ حکومت نے آمدنی سے زیادہ 2300ارب روپے اخراجات کئے ہیں۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح 20ارب ڈالر اور تجارتی خسارہ 32ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ جولائی 2018سے قرضوں میں 18فیصد یعنی 5.2کھرب روپے اضافہ ہوا ہے جن پر حکومت کو رواں مالی سال 3000ارب روپے سود کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔ معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے بجٹ میں لئے گئے اقدامات پیداواری لاگت میں اضافہ کرینگے جس سے عالمی منڈی میں ہمارے ایکسپورٹرز کی مقابلاتی سکت متاثر ہوگی اور آنے والے وقت میں افراط زر یعنی مہنگائی میں اضافہ اور معاشی سست رفتاری متوقع ہے جس سے ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوگا۔

تازہ ترین