اشفاق نیاز، سیال کوٹ
سیال کوٹ کی بنیاد پانچ ہزار سال پہلے راجہ سَل نے رکھی تھی۔ اس قدیم شہر کا تاریخی قلعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جسے مؤرخین نے خطّے کی قدیم ترین عمارتوں میں شمار کیا ہے۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ قلعہ، جہاں بنایا گیا ہے وہاں ایک جھیل ہوا کرتی تھی، مگر’’ قدیم آثارِ ہند‘‘ کے مؤلف نے واضح کیا ہے کہ یہ قلعہ ایک ٹیلے پر تعمیر کیا گیا تھا۔ تاریخ کی وَرق گردانی سے پتا چلتا ہے کہ راجا بکر ماجیت ہند کے علاقے فتح کرتا ہوا جمّوں کی سرحد، سیال کوٹ پہنچا، تو اس پر بھی قبضہ کرلیا۔ سیال کوٹ اُس زمانے میں جمّوں کے راجا، سوم دت کے ماتحت تھا۔ سوم دت نے راجا سالباہن کو سرکوبی کے لیے بھیجا، جس نے بکرماجیت کو قتل کرنے کے بعد سیال کوٹ میں اپنے جھنڈے گاڑ لیے۔ سالباہن نے تخت نشین ہوتے ہی اس قلعے کو وسیع اور مضبوط کرنے کے لیے اردگرد کی جھیلوں کو مٹّی سے پُر کروانا شروع کیا۔ مسعود غزنوی کے دَور کے معروف مؤرخ، بودھا پرام نے اپنی تخلیق ’’پربھ دھار‘‘ کے صفحہ 517 پر نقل کیا ہے کہ’’قلعے کی تعمیر وتوسیع کے لیے بڑے بڑے پتھر یوران کوٹ (پٹھان کوٹ) سے لائے گئے۔‘‘ قلعہ دو سال میں تیار ہوا، جس کے دو بڑے دروازے تھے۔ ایک دروازہ وہاں تھا، جہاں آج کل پیر مُراد کا مزار ہے اور دوسرا دروازہ، آج کے مین بازار کی جانب تھا۔ قلعے کی دو فصیلیں اور بارہ برج تھے۔ یہ چوک شہیداں سے چوک گرین کیفے اور وہاں سے بستی پٹھاناں (موجودہ اڈشہباز خان) چوک کاٹھیاں اور چوک شہیداں تک پھیلا ہوا تھا۔
حضرت پیر مُراد کے متعلق، جن کا مزار قلعے پر واقع ہے، مشہور مؤرخ، محمّد دین فوق کا بھی یہی نظریہ ہے کہ وہ بابری دَور کے شہداء میں سے ہیں۔ بابر نے جس وقت قلعے پر حملہ کیا، تو حضرت پیر مُراد حملہ آور لشکر کے سالار تھے اور قلعہ اُنہی کی کاوشوں سے فتح ہوا۔تاہم، وہ اس جنگ میں شہید ہوگئے۔جمّوں کا مشہور راجا،سوم دت کافی عرصے تک اس قلعے پر قابض رہا۔ مشہور تاریخ’’ راجا ترنگنی‘‘ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ راجا سوم دت نے اس قلعے کی دفاعی حالت کو مزید بہتر بنایا اور یہاں اپنے لیے محلات بھی تعمیر کروائے۔362ء میں گکھڑ سردار، راجا ہوڈی نے شدید جنگ کے بعد قلعے پر قبضہ کر لیا اور راجا رسالو کی بیٹی، سہاون سے شادی کے بعد قلعہ اور شہر راجا رسالو کے حوالے کردیا۔455ء میں ہُن قوم کے سردار، مہر گل نے سیال کوٹ کو دارالحکومت بنایا، تو قلعے کے برج اور فصیل ازسِر نو تعمیر کی گئیں۔ بہ قول مؤلف ’’خلاصتہ التواریخ‘‘، قلعے میں ایک برج بھی بنوایا جو تقریباً 2 سو فٹ اونچا تھا اور’’ سفر نامہ مظہری‘‘ کے مطابق، راجا اس برج سے جانوروں کی مشکیں باندھ کر نیچے گرایا کرتا اور ان کے مرنے کا نظارہ دیکھتا۔ سابقہ گھاس منڈی سے جو راستہ سبزی منڈی والے موڑ (مسلم ہائی اسکول) کے باہر جا نکلتا ہے، وہاں قریب ہی ہن قوم کی فصیلوں کے آثار موجود تھے، جو اب معدوم ہوچکے ہیں۔ اسی مقام سے 1902ء میں سخت بارش کی وجہ سے قلعے کا ایک حصّہ گرنے سے مہر گل اور طورگل کے وقت کے سکّے اور کچھ مُہریں بھی ملی تھی۔795ء میں یوسف زئی سردار، نریت نے شہر کے ساتھ قلعے پر بھی قبضہ جما لیا اور مہر گل کے تعمیر کردہ برج کو تباہ کردیا۔ محمود غزنوی کے دَور میں انند پال نے آئے دن کے حملوں سے تنگ آکر سیال کوٹ کو دارالحکومت بنایا۔ اس نے قلعے کی مرمّت کے ساتھ، شہر کے ارد گرد فصیل بنوائی اور خندق بھی کھدوائی۔ نیز، قلعے میں ایک بلند مینار بنوایا، جس پر پہرے دار شہر کے حالات کا جائزہ اور جنگ کے وقت دشمن کی نقل وحرکت دیکھا کرتے تھے۔ محمود غزنوی کے بعد، جب امیر مودود برسرِ اقتدار آیا، تو وہ سیال کوٹ آیا تاکہ قلعے سے خزانہ وغیرہ لے کر پوری قوّت سے حملہ آور ہوسکے۔ جب امیر مودود قلعے سے روانہ ہونے لگا، تو اُس پر دردِ قولنج کا شدید حملہ ہوا، جس پر وہ تمام پروگرام ملتوی کرکے غزنی روانہ ہوا، مگر راستے ہی میں انتقال کرگیا۔ شہاب الدّین غوری تخت نشین ہوا، تو اُسے گکھڑ قوم کے سردار، خسرو ملک نے بہت پریشان کیا۔ غوری اس کی سرکوبی کے لیے آیا، تو وہ سردار قلعہ بند ہوگیا، مگر جب اُسے یقین ہوگیا کہ وہ مقابلہ نہیں کرسکے گا، تو اُس نے معافی کی درخواست کے طور پر اپنے چھوٹے بیٹے، ملک شاہ کو زنجیروں سے باندھ کر غوری کے پاس بھیجا۔ جب بابر کا دَور آیا، تو اس نے قلعہ اور شہر خسرو کے سُپرد کردیا۔ بعد میں دولت خاں افغان نے شہر پر حملہ کردیا، سخت جنگ ہوئی اور بابر نے پیر مُراد کی سرکردگی میں ایک لشکر روانہ کیا، جس نے دولت خان کو مار بھگایا۔ اس فتح کی خوشی میں’’ مینارِ نصرت‘‘ بھی قلعے میں تعمیر کروایا گیا، جو جہانگیر کے دَور تک قائم رہا۔ علاوہ ازیں، اکبر بادشاہ، گجرات سے سیال کوٹ آیا، تو اس قلعے میں جشن منایا گیا اور قلعے کے ہاتھی دروازے کا نام’’ اکبری دروازہ‘‘ رکھا گیا۔ اکبر اس قلعے میں تقریباً دس دن مقیم رہا۔ جب جہانگیر تخت نشین ہوا تو اُس وقت سیال کوٹ کا قلعہ، علی مردان خان کے پاس تھا، جو اپنے وقت کا زبردست انجینئر تھا۔ اُس نے ’’پل نالہ ایک‘‘، مسجد عبدالکریم اور مزار حضرت امام علی الحق کے علاوہ، قلعہ سیال کوٹ کو بھی اَزسر نو تعمیر کروایا۔ 1764ء میں سِکھوں نے حملہ کرکے قلعے کو اکھاڑ ڈالا۔ اجیت سنگھ کے بعد قبیلہ بھنگی کا ایک سردار، جیون سنگھ شہر اور قلعے پر قابض رہا۔ اُس نے رنجیت سنگھ کے سامنے جُھکنے سے انکار کیا، تو رنجیت سنگھ نے دھاوا بول کر قلعے پر قبضہ کرلیا۔ 1839ء میں یہ قلعہ رنجیت سنگھ کے دو لڑکوں، کشمیرا سنگھ اور پشورا سنگھ کے قبضے میں تھا۔
1849ء میں انگریزوں نے سیال کوٹ اور اس قلعے پر قبضہ کرلیا۔ اس دَوران قلعے کو سب سے زیادہ نقصان 1857ء کی’’ جنگِ آزادی‘‘ میں پہنچا، کیوں کہ بنگال کیولری اور چھیالیس پرگنہ نمبر رجمنٹ نے حرمت خان کی سرکردگی میں قلعے پر حملہ کردیا تھا۔ دونوں طرف سے آگ برسنے لگی۔ قلعے کے برج، مینار بُری طرح تباہ ہوئے مگر انقلابی قلعے پر قبضہ نہ کرسکے۔ قلعے کے کمانڈر کا نام، میجر ہنری تھا۔ جب حالات درست ہوگئے، تو 18جولائی 1857ء کو کیپٹن لارنس اور مسٹر گریس پر مشتمل ایک وفد سیال کوٹ آیا، جس نے میجر ہنری کے کمرے میں عدالت لگائی۔ خان نور خان، آفتاب خان، مہر قاسم خان، کچھمن رائو اور نرائن رائو وغیرہ کو گولی کی سزا دی گئی تھی۔ ان میں سے جو مسلمان تھے، اُنہیں قلعے میں دفن کردیا گیا، جن کے مقابر آج بھی قلعے کے صحن میں موجود ہیں۔ جب امن ہوگیا، تو انگریزوں نے فصیل سے قلعے تک سڑک بنادی گئی۔ آج کل قلعے تک آمدورفت اسی سڑک کے ذریعے ہوتی ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ انگریزی عہد میں اس قلعے کی دفاعی حیثیت کو ختم کرکے اسے اُمورِ عامّہ کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔انگریزی عہد میں یہاں تھانہ سٹی، دفتر میونسپلٹی، دفتر ڈسٹرکٹ بورڈنگ ہائوس اور منٹگمری لائبریری کی بنیاد رکھی گئی۔ 14 اگست 1947ء کو قلعہ سیال کوٹ پاکستان کے حصّے میں آیا، تو منٹگمری لائبریری اور جناح ہال کی اَزسر نو تعمیر کروائی گئی۔ تاہم، افسوس ناک بات یہ ہے کہ اِس وقت قلعے کی حالت انتہائی مخدوش ہے اور تاریخی آثار تیزی سے مِٹتے جا رہے ہیں۔نیز، یہ تاریخی قلعہ سرکاری دفاترکی آماج گاہ بن چُکا ہے۔عوامی حلقوں کی جانب سے قلعے کو’’قومی وَرثہ‘‘ قرار دینے اور اسے محفوظ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، مگر اُن کے اس جائز مطالبے پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں۔