• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوثر ضیاء

گھر پیارا گھر، مقدس رشتوں کی زنجیر میں بندھا ہوا ایک پیارا سا بندھن، جوصرف محبت اور اخلاص سے ہی قائم رہ سکتا ہے۔ اس بندھن کو قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ جان جوکھوں کا کام ہے۔ من مارنا پڑتا ہے۔ گھر کے ایک فرد کو منائو تو دوسرا ناراض، دوسرے کے پاس بیٹھو تو تیسرا اپنے دل میں بدگمانی کو جگہ دینے لگتا ہے اور جہاں ذرا سے برتن ٹکراتے تو وہ بے سکونی کہ الاماں الحفیظ، یہ ریشم کی ڈوریاں الجھ جائیں تو کیسے سلجھائیں۔ ادھر ساس سسر ہیں، اب بڑھاپا بھی ہے، صحت کے مسائل بھی ہیں۔ اعصاب بھی کمزور ہوچکے ہیں۔ افراد خانہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کو غصہ بھی آنے لگا ہے۔ یہ دیور بھائی ہیں۔ نٹ کھٹ، لاپروا، من مو جی اور نندیں تو لاڈوں سے کھیلی، نخرے بھی ہے ، ان کے نخرے اٹھالے گی۔ ان کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھ لے گی۔ رخصت بھی تو بھابھیوں کے ہاتھوں ہی ہونا ہے۔ یہ سب کیسے ممکن ہے۔ مشکل ہے نا۔ ارے نہیں بھئی کیسی مشکل، بات صرف سوچ کی ہے۔ آپ سسرال کو اور شوہر کے گھر کو اپنا سمجھ کر تو دیکھیں۔ پھر دیکھیں کیسے آپ راج کریں گی۔ شوہر کے گھر پر اور سسرال والوں کے دلوں میں۔

ہم بھی بہو لانے کا سوچ رہے تھے۔ ایک پہاڑ تھا جو سر کرنا تھا۔ اکلوتا بیٹا تھا۔ معاشرے کے تجربات بڑے کڑوے تھے۔ لوگوں کی باتیں کلیجہ جلاتی تھیں۔ ارے دیکھنا بھئی آج کی لڑکیاں تو، توبہ توبہ بہت چالاک ہیں۔ ساس سسر کو تو پائوں کی جوتی سمجھتی ہیں اور تمہارا تو اکلوتا بیٹا ہے، کوئی کہتا، ارے پہلے دن سے ہی بیٹا بہو کو الگ کردینا، بڑھاپا خراب ہونے سے بچ جائے گا۔ کوئی کہتا آرام پانا چاہتی ہو تو چھوٹے موٹے گھر کی لے آنا دب کر رہے گی۔ نوکری والی بہو کے بارے میں تو سوچنا بھی نہ، تگنی کا ناچ نچاے گی تمہیں۔ یا اللہ میں کدھر جائوں، نمازوں میں روتی، دعائیں کرتی، اے میرے خدا نیک لڑکی سے واسطہ ڈالنا، میں بہو نہیں بیٹی بناکر گھر لانا چاہتی ہوں، لیکن دنیا کی باتیں خوشیاں ملنے سے پہلے ہی کلیجہ چھلنی کئے دے رہی ہیں، کیسی گھڑی آچکی ، خوشیاں تو ہمارے دروازے پر دستک دینے کےلیےتیار ہوتی ہیں۔ ہم اپنی انا کے خول میں بند اس کو وصول ہی نہیں کرتے۔ کس طرح کا وقت آگیا ہے کہ دوسروں کی بیٹی کو بیاہ کر گھر لے کر آئو، پھر اس کے ساتھ دشمنوں کا سا سلوک کرو کہ ہم بیٹے والے ہیں۔ آنے والی کے ارمانوں کا خون کردو ، اس کو سر اٹھا کر جینے نہ دو، کیوں کہ ہم سسرال والے ہیں۔ بہو کو اس کے مقام پر رکھیں گے۔ وہ سوتی کیوں رہتی ہے۔ کام کیوں نہیں کرتی، روزانہ اپنے میاں کے ساتھ باہر گھومنے کیوں چلی جاتی ہے، حالانکہ ان ساری باتوں کی توقع اپنی بیٹیوں کےلیے ضرور رکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم کس طرح کے تضادات کا شکار ہیں۔ خوشیاں بانٹنےکا سلیقہ ہی نہیں ، کبھی بہو کو بھی اپنا سمجھ کر دیکھیں۔ بیٹی کا درجہ دیں۔ اپنی بیٹیاں بھی تو گھر کے کاموں میں سستی کردیتی ہیں۔ کام کرنے سے انکار کردیتی ہیں، اس مان کے ساتھ کہ اپنا گھر ہے، ذرا سی ڈانٹ ہی پڑے گی خیر ہے، لیکن بہو کو ذرا سی بات پر کٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں، پھر اس کے خاوند کے کان بھرتےہیں۔ ہم اپنے بزرگوں کے زمانے کی کہانیاں بھول گئے۔ دلہن بیاہ کر لائے تھے اور اگلے دن بہو کی گود میں گھر کی چابیاں ڈالتے تھے کہ بہو رانی، اب تم اس کی مالکن ہو، ہم تو اپنی ذمے داری ادا کر چکے، اب تم سنبھالو، اتنا درجہ بہو کو ملے گا تو وہ کیوں نہ ساس سسر اور سسرال والوں کی خدمت کرے گی، اس گھر کی عزت کو دوبالا کرے گی۔ گھر آنگن تو تتلیوں کے رنگوں اور پھولوں کی مہک سے مہکتا ہے۔ تتلیاں اُڑ جائیں تو رنگ، ہاتھوں میں رہ جاتے ہیں۔ پھول مرجھا جائیں، لیکن خوشبو بسی رہتی ہے۔ ایک گھر کی چار دیواری میں بسنے والے رشتے ایسے ہی خوبصورت ہونے چاہئیں۔ہمیں چاہیے کہ بہو کو گھر لانے کے بعد اپنے گھر کے طور طریقے اُس کو اچھے سے بتادیں ۔

بہو کو گھر کی مالکن بنا کر رکھیں ،نوکرانی بنا کر نہیںاور بہوئوں کے ساتھ مقابلے کا رشتہ نہ رکھیں،آپ بڑے مقام پر ہیں ،ان کو اپنی طرف سے محبت ،شفقت اور دعائیں ہی دیں ۔

بہو کو پہلے ہی دن سمجھا دیں کہ بیٹی اپنے گھر کی چھوٹی چھوٹی باتیں فون کرکے اپنی والدہ کو نہ بتانا۔ اگر گھر کی کوئی بات یہ چیز آپ کو اچھی نہ لگے تو مجھ سے شیئر کریں ،مجھے اپنی ماں سمجھے۔گھر کے خرچے اور گھرداری کی ذمے داریاں اُس کو سونپ دیں ۔گھر کی آمدنی کا اُس کو نگران بنا دیں ۔

اپنے گھروں کو جنت بنانے کےلیے سب کو ہی اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ قربانی کرنی پڑتی ہے۔ منہ بند رکھنا پڑتا ہے۔ قوت برداشت کا امتحان دینا پڑتا ہے۔ تب کہیں جاکر یہ جنت خوش نصیبوں کی قسمت بنتی ہے۔

جہاں خلوص اور محبت کے ساتھ رشتے نبھائیں جائیں۔ قول و فعل میں تضاد نہ ہو، منافقت نہ ہو، وہاں چھوٹی چھوٹی رنجشیں کبھی بڑی نہیں ہوتیں، ہر کوئی اس امتحان میں سرخرو ہوجاتا ہے۔

سسرال والے بہو بیاہ کر لائیں اور بیٹی بنا کر رکھیں۔ مائیں بیٹیوں کو یہ تربیت دیں کہ شوہر اور سسرال والوں کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں۔ دل ایسے ہی جیتے جاسکتے ہیں۔ یہ جنت خدا کے فضل، اس کی مدد اور تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گھروں کو دنیا کی جنت بنا دے۔ اور بہترین نسلیں یہاں پروان چڑھیں ۔ آمین

تازہ ترین