پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے بجٹ 2019-20کو پاکستان کی عوام کے لئے معاشی خود کشی قرار دے کر اس کے خلاف اسمبلیوں کے اندر اور باہر تحریک چلانے اور اس کی منظوری روکنے کے لئے ہر حد تک جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر بجٹ کی منظوری روک پائیں گی یا نہیں؟ بلاول بھٹو نے مریم نواز سے ملاقات کرکے حکومت مخالف تحریک کو بھی حتمی شکل دی ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن سے بھی مشاورت کے لئے بلاول بھٹو لاہور سے اسلام آباد گئے ہیں۔ بلاول بھٹو نے بینظیر بھٹو کی 21جولائی کو سالگرہ کے موقع پر بڑے پیمانے پر’’ عوام رابطہ مہم‘‘ کا بھی اعلان کیا ہے۔ حکومت کے لئے اس وقت یہ بھی مشکل پیدا ہو سکتی ہے کہ اگر بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے سربراہ اختر جان مینگل اپنے مطالبات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے، اختر مینگل کے مطالبات بھی اپنی جگہ جائز ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کو بلیک میل نہیں کیا لیکن بلوچستان کے عوام جنہیں 70سال سے ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا، کو ان کا حق دلانے کے لئے پرعزم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت سے کوئی وزارت یا ہائی پروفائل پوسٹنگز بھی نہیں مانگیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے بی این پی(مینگل) سے جو وعدے کئے وہ پورے نہیں کئے گئے۔ یہ مطالبے فیڈریشن کے لئے بھی بہت اہم ہیں کیونکہ سیاسی حل کے بغیر بلوچستان کو درپیش مسائل کا حل ممکن نہیں۔ اختر مینگل نے مطالبات منظور نہ ہونے پر پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرنے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ بی این پی(مینگل)
کی قومی اسمبلی میں چار سیٹیں ہیں لیکن وہ پی ٹی آئی حکومت کے لئے ایک بڑا سہارا ہیں جس کے بغیر شاید پی ٹی آئی حکومت شدید دبائو اور مشکل میں پڑ سکتی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کی جدوجہد میں ایک اہم ترین نقطہ جس پر تمام جماعتیں متفق ہیں اور عوامی سپورٹ حاصل کرسکتی ہیں وہ مہنگائی اور معاشی زبوں حالی ہے۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ عوام شاید کسی اور بیانیے پر باہر نکلیں یا نہیں لیکن مہنگائی، بے روزگاری، معاشی زبوں حالی پر ضرور نکلیں گے، جس نے عوام کی چیخیں نکلوادی ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے سپورٹرز بھی اب دفاعی پوزیشن اختیار کرچکے ہیں۔ تاجر برادری اور سب سے بڑھ کر اس ملک کے چھ کروڑ سے زائد مزدور بھی متاثر ہیں۔ مزدور رہنما بجٹ کے بعد اپنے جلسوں میں کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ چھ کروڑ ہیں اور ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والے لوگ وزیراعظم بن جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ سیاسی جماعتیں اور ہر طبقہ حالات سے پریشان ہو کر تبدیلی چاہتا ہے تاکہ ان کو ریلیف مل سکے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا ایک بڑا ووٹ بنک ہے۔ حکومت مخالف تحریک اب سے شروع ہو کر ستمبر کے بعد زور پکڑ سکتی ہے جس سے حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز پرعزم ہیں کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کے لئے ایک بڑے سہارے اور ستون اختر مینگل کو اس تحریک میں شامل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ صورتحال اور وقت بہت دلچسپ ہے۔ بڑے اداروں میں بھی اہم تبدیلیاں ہونی ہیں۔ حالات اپوزیشن اور حکومت دونوں کے لئے بہت مشکل ہیں کیونکہ دونوں کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ بلاول بھٹو حکومت مخالف تحریک میں مریم نواز پر بھرپور اعتماد کے ساتھ چل پڑے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے باقاعدہ کہا ہے کہ مریم نواز اپنے والد نواز شریف کو شرمندہ نہیں ہونے دے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے دونوں جماعتیں دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کر کتنے اخلاص کے ساتھ آگےبڑھتی ہیں اور حکومت کو بجٹ کی منظوری روکنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔