• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبر پختونخوا خصوصاً پاک افغان بارڈر سے متصل علاقوں میں جو پہلے ہی پولیو وارننگ کی زد میں ہیں، مقامی لوگوں کی مزاحمت کے باعث اس مرض کے خاتمے کی اب تک کوئی بھی مہم مکمل نہیں ہو سکی، یہی وجہ ہے کہ اس صوبے میں اب تک پولیو کے کئی کیس سامنے آ چکے ہیں۔ جمعرات کے روز بنوں اور تورغر کے اضلاع میں دو دو جبکہ ضم ضلع شمالی وزیرستان میں ایک مزید کیس کی تصدیق ہونے سے صوبے میں متاثرہ بچوں کی تعداد 26جبکہ ملک بھر میں 32ہو گئی ہے۔ پولیو سے آزاد دنیا کے تصور میں یہ صورتحال ہمارے لئے باعث ندامت ہے۔ متذکرہ پانچوں بچوں کو معمول کی مہم میں کوئی قطرے نہیں ملے اور یہ تعداد جس طرح بڑھ رہی ہے اگر اس کا سختی سے نوٹس نہ لیا گیا تو بے قابو بھی ہو سکتی ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ خیبر پختونخوا کے بیشتر اضلاع میں پولیو کے خلاف کام کرنے والی ٹیموں پر شرپسند عناصر مقامی لوگوں کی مدد سے حملہ کرتے ہیں جس سے میلوں کا سفر طے کر کے وہاں بمشکل پہنچنے والے ورکروں کو جان بچانا بھی مشکل ہو جاتا ہے اور وہ کام ادھورا چھوڑ کر بھاگ نکلنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ یہی حال ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کا ہوتا ہے جو مقامی لوگوں کی اکٹھ اور اشتعال انگیزی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ خیبر پختونخوا کے بیشتر کیس اسی صورتحال کا نتیجہ ہیں جبکہ پنجاب کے لاہور اور فیصل آباد جیسے بڑے شہروں سے لیکر دور دراز مقامات تک گزشتہ مہینوں کے دوران سامنے آنے والے کیسوں کی وجوہات میں والدین کی لاپرواہی، عدم آگہی اور بعض پولیو ٹیموں کی ناقص کارکردگی بھی خارج از امکان نہیں۔ یہ مجموعی صورتحال وفاقی اور صوبائی حکام کے لئے کسی بھی وقت کوئی بڑی مشکل کھڑی کر سکتی ہے جس سے نمٹنے کے لئے پولیو کے قطرے پلانے میں سو فیصد ٹھوس بنیادوں پر نتائج حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ اگر ہم نے دنیا بھر کی طرح ملک سے پولیو کا مکمل تدارک نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین