• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوہانجنا: بھر پور سُپر فوڈ، نباتاتی ادویہ میں سرفہرست

حافظ مسعود احمد،فیصل آباد

مورنگا، جسے سوہانجنا یا سوانجنا بھی کہا جاتا ہے۔ 90ء کی دہائی میں امریکی سائنس دانوں کی تحقیقات کا مرکز بنا اور پھر دُنیا بھر میں اس کے خواص کے چرچے ہونے لگے۔ اگرچہ اس سے قبل ہمارے ماہرین بھی اس کے خواص بیان کرتے رہے، مگر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ تاہم، 2008ءمیں زرعی یونی ورسٹی ،فیصل آباد کے ایک پروفیسر، ڈاکٹر شہزاد بسرا نے یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کے دوران مورنگا کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور اب اُن کا شمار دُنیا کے دس بڑے مورنگا ایکسپرٹس میں کیا جاتا ہے۔

سوہانجنا ایک ایسا پودا ہے، جس کے تازہ پتّوں میں پروٹین، دہی سے دو گنا، پوٹاشیم، کیلے سے تین گنا ، کیلشیم، دودھ سے چار گنا، وٹامن اے، گاجر سے چار گنا، وٹامن سی، سنگترے سے سات گنا، آئرن، پالک سے نو گنا اور باداموں سے تین گنا زائد پایا جاتا ہے اور اگر مورنگا کے خشک پتّوں کا ان اجزاء سےموازنہ کیا جائے، تو پھر ہر عدد کو چار سے ضرب دینی ہوگی، کیوں کہ اس کے تازہ پتّوں کو خشک کرنے کے بعد ان کا وزن ایک چوتھائی رہ جاتا ہے۔ امریکی سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق یہ تین سو سے زائد بیماریوں مثلاً ذیابطیس، دِل کے امراض، بُلند فشارِ خون، خون کی کمی، جوڑوںکےدرد اور ڈیپریشن کے علاج میں فائدہ مند ہے۔

سوہانجنا غذائیت سے بَھرپور ایک سُپرفوڈ ہی نہیں،نباتاتی ادویہ میں بھی سرِفہرست ہے۔پروٹین کی اکائیوں کو امائنو ایسڈزکہا جاتا ہے۔ امائنو ایسڈز کی اب تک بیس اقسام دریافت ہوچُکی ہیں۔ یہ ایسڈز ہمیں دہی، دودھ، پنیر، انڈوں اور گوشت سے حاصل ہوتے ہیں۔ حیران کُن طور پر انہی امائنو ایسڈز کی زیادہ تر اقسام سوہانجنا میں بھی پائی جاتی ہیں۔سوہانجنا دودھ پلانے والی مائوں کے لیےبھی ایک بہترین ٹانک ہے،تومنہگے سے منہگے ملٹی وٹامنز کیپسول بھی اس کی افادیت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔سرطان سے بچاؤ کے لیے اس کا استعمال گویا ایک تیر بہدف نسخہ ہے۔ وہ افراد جو دائمی نزلے کا شکار ہیں، اگر سوہانجنا استعمال کریں، تو مرض سے مکمل طور پر نجات مل جاتی ہے۔ پوٹاشیم دماغ اور اعصابی نظام کو طاقت ور بناتا ہے۔نیز، دماغ کے خلیوں کی عُمر، دماغی صلاحیتوں اور ذہانت میں بھی اضافہ کرتا ہے اور چوں کہ سوہانجنا میں پوٹاشیم زائد مقدار میں پایا جاتا ہے، تو کم زور دماغ اور اعصاب والے افراد خاص طور پر اس کا استعمال کریں۔طبّی ماہرین نے گاجر کو وٹامن اے کا ماخذ قرار دیا ہے، لیکن سوہانجنا میں گاجر کی نسبت کہیں زیادہ مقدار میں وٹامن اے پایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ وٹامن اے کا استعمال آنکھ، جِلد، دِل اور معدے کے امراض سے محفوظ رکھتاہے۔ دودھ کو کیلشیم کا ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔ کیلشیم ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے اور سوہانجنامیں کیلشیم دودھ سے چار گنازیادہ پایا جاتا ہے۔ آئرن، خون کے سُرخ خلیے بنانے میں مدد فراہم کرتاہے،جب کہ سوہانجنامیں پالک سے کہیں زیادہ مقدار میں آئرن پایا جاتا ہے۔ متوازن صحت کے لیے جن وٹامنز کا استعمال ضروری قرار دیا گیا ہے، اُن میں سے وٹامن اے، وٹامن بی ون، بی ٹو، بی تھری،بی سکس اور وٹامن سی، جب کہ منرلز میں کیلشیم، کاپر، پوٹاشیم، کرومیئم، آئرن، میگنیشیم، فاسفورس اور زنک شامل ہیں۔ اورسوہانجنا میں یہ تمام اجزاء وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوہانجنا کا استعمال کیسے اور کتنی مقدار میں کیا جائے۔ تویاد رہے، ایک دِن میںسوہانجنا کے خشک پتّوں کا سفوف5گرام سےلے کر20گرام اور تازہ پتّوں کا سفوف20گرام سے لے کر 80گرام تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر اس کے استعمال سے ابتدا میں کثرت سے پیشاب آتا ہے،جو پریشانی والی بات نہیں۔ کیوں کہ جسم سے فاسد مادّے خارج ہورہے ہوتے ہیں۔بعد ازاں یہ شکایت ختم ہوجاتی ہے۔ رہی بات استعمال کے طریقوں کی تو روایتی طور پر اس کا سفوف سالن میں شامل کیا جاتاہے۔تاہم، اسے آٹے میں گوندھ کر روٹی بناکر، سالن کے اوپر میتھی کی طرح چھڑک کر یا ایک گلاس پانی میں آدھا یا ایک چمچ پائوڈر مِکس کرکے بھی پی سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، اس کا پائوڈر خالی کیپسول میں بَھر کر پانی کے ساتھ استعمال کی جا سکتا ہے۔ یہ ہر عُمر کے افراد کے لیے مفید ہے۔

سوہانجنا کوقلم یا پھر بیج کے ذریعے آسانی سے اُگایا جاسکتا ہے اورفروری سے لے کر ستمبر تک کے مہینے اس کے لیےموزوں ترین ہیں۔ اس کا پودا تیزی سے نشوونما پاکر آٹھ ماہ میں مکمل درخت بن جاتا ہے۔زمین میں اس کے بیج بوتے وقت دو باتوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ایک تو بیج زمین میں ایک انچ سے گہرےنہ دبائیں، دوسرا پانی بالکل نہ دیں۔ پانی بیج اُگنے کے ایک ہفتے بعددیا جاتا ہے۔ چوں کہ یہ بنیادی طور پر گرم علاقے کا پودا ہے، اس لیے گرمیوں میں بارش کے دِنوں میں تیزی سے بڑھتا ہے اور پانی کی مناسب فراہمی، تیز روشنی اور بُلند درجۂ حرارت اس پودے کی بنیادی ضروریات ہیں۔

(مضمون نگار، زرعی یونی ورسٹی، فیصل آباد کے شعبۂ جنگلات میں بطور لیکچرار خدمات سرانجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین