• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی تاریخ رکاوٹوں سے بھرپور اور دائروں کے سفر کی ایسی کہانی ہے جو نت نئے تجربات کے نام پر وہی پتلی تماشے کا کھیل ہے جس میں نئے کردار آتے جا رہے ہیں مگر منظر وہی پرانا چل رہا ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا کہ

منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

ہم بھی کیا لوگ ہیں، ہر وقت نیا تجربہ کرنے پر آمادہ، کبھی کسی کو ماننے پر آئیں تو اُس کی تمام خامیوں سے صرف نظر کر جاتے ہیں اور کسی کو فراموش کریں تو اُسکی تمام خوبیاں ایسے بھول جاتے ہیں کہ جیسے جانتے نہیں، پہچانتے نہیں۔ ہم دعویٰ تو یہ رکھتے ہیں کہ مملکتِ خدا داد ایک نظریاتی ریاست ہے لیکن انفرادی طور ہم پر کسی نظریے سے وفادار نہیں رہتے۔قائد اعظم کو ریاست کو آگے بڑھانے کے لئے انتہائی قلیل وقت ملا اور ویسے بھی آدھے سے زیادہ پاکستان گنوا کر ہم نے قائد کا پاکستان تو کھو دیا بہرحال اس ٹوٹے پھوٹے ملک اور خستہ حال سماج اور شکستہ نظام کو بھٹو صاحب نے نئی جلا بخشی اور قائدِ عوام کہلائے مگر 5جولائی 1977کا سیاہ دن جہاں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو اقتدار سے غیر آئینی طریقے سے علیحدہ کرنے کا باعث بنا وہیں اس ملک کو جمہوری سے آمرانہ بنایا گیا۔ اُس وقت کے آمر نے اس ملک کے عوام کو اُمیدِ سحر کے سفر سے روک کر مایوسی کے گھپ اندھیروں میں ڈبو دیا اور دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ رات کٹتی نظر نہیں آتی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اس بدترین دور میں جہدو جہد کا استعارہ بن کر سامنے آئیں جب سب خوف زدہ تھے کہ رات کٹتی نظر نہیں آتی،ایسے وقت میں نہتی لڑکی نے طاقتوروں سے ٹکرانے کا فیصلہ کر لیا۔ بی بی کی تیس سالہ شاندار جدوجہد نظریاتی سیاست کی بحالی کے لئے تھی تاکہ دولت کے بل بوتے پر کی جانے والی سیاست کو ختم کیا جاسکے۔ ذات برادری، فرقہ واریت، انتہاء پسندی، عدم برداشت اور آمریت کے خلاف بے نظیر بھٹو کی بے نظیر جدوجہد ناقابل فراموش ہے۔

ضیاء اور مشرف کے آمرانہ ادوار نے قومی یکجہتی اور جمہوری ارتقاء کو تباہ کن نقصان پہنچایا۔ آمرانہ اور نیم جمہوری ادوار کے بعد آج کل فاشسٹ نظام کا تجربہ ہو رہا ہے یہ خود پرست پارسائوں کا ایسا ’’نازی راج‘‘ ہے جس میں سرکاری زبان اُردو یا انگریزی کے بجائے صرف جھوٹ ہے۔ نازی راج کی سمت کا تعین تو نہیں ہو سکا بہرحال امپائر کی انگلی اور یو ٹرن سرکاری نشان ہے۔ پرانے پاکستان کے آمرانہ ادوار کے ہتھکنڈے ’’نئے پاکستان‘‘ میں نافذالعمل ہیں۔ انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل نہ کرنے والی جماعت اپنے سے لاکھوں ووٹ زیادہ لینے والی جماعتوں کو مسترد شدہ قرار دے رہی ہیں اور خود کو منتخب شدہ ثابت کر رہی ہیں۔ ریاست اور غیر ریاستی عناصر نے سیاست اور سماج کو ایسا آلودہ کر دیا ہے کہ آئین اور آئینی اداروں کو غیر اہم سمجھا جا رہا ہے۔ پارلیمان کو فیصلہ سازی کے عمل سے دور کر دیا گیا ہے۔ خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، معاشی اور سیاسی فیصلے کہاں ہوتے ہیں، کسی کو کوئی علم نہیں۔ انتقامی کارروائیوں کے ذریعے گفت و شنید کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔اپوزیشن رہنمائوں کو بھونڈے الزامات کے تحت پابند ِ سلاسل کیا جا رہا ہے اور لاڈلے بنی گالا کے بہشتی دروازے سے پوتر ہو کر پاک صاف ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں الیکٹیڈ سیاسی قیادت اور سلیکٹیڈ مصنوعی قیادت کے درمیان روا رکھا جانے والا سلوک سب پر عیاں ہے۔

ہم کب سیکھیں گے؟ بارہا ناکام تجربات کے باوجود جمہوری اصولوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ عوام کے حقِ حاکمیت کو ہمیشہ کی طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ بانیانِ پاکستان جمہوریت کو پاکستان کا مقدر قرار دے چکے ہیں لیکن آج بھی جمہوریت کو اپنی مرضی و منشاکے تحت چلانے کی کوشش جاری ہے۔ انسانی، جمہوری اور معاشی حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ سلیکٹیڈ پارلیمان، سلیکٹیڈ عدلیہ اور سکیکٹیڈ حکومت کی خواہش پر ملک کے وقار اور سالمیت کو دائو پر لگا یا جارہا ہے جبکہ نالائق، نااہل افراد کو سیاسی قیادت کے طور پر منوانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ جب عدلیہ، بیورکریسی اور دوسرے ادارے تاجِ برطانیہ کی وفاداری میں فرائض انجام دے رہے تھے اُس وقت کروڑوں سیاسی کارکن قائداعظم کی قیادت میں آزاد ملک کی جدوجہد کر رہے تھے، لہٰذا جن اداروں کا پاکستان کے قیام میں کوئی کردار نہ ہے وہ سیاست اور سیاسی قیادت کو ختم کرنے کے در پے ہیں۔حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کا مقدر عدالتیں، کٹہرے، تختہ دار، جیلیں اور الزامات و کردار کشی ہے مگر ایوب، یحییٰ، ضیاء اور مشرف قانون سے بالا تر قرار پاتے ہیں۔

آخر کبھی تو یہ تماشا ختم ہونا ہے ہمیں بھی نفرت اور انتقام کے بجائے تدبر و تحمل کی طرف آگے بڑھنا ہے اور اس کا بہترین راستہ ’’ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن‘‘ کا قیام ہے۔ اب ریاست کو تعصبات سے بالا تر ہو کر یہ فیصلہ کرنا ہے۔ کہ اگر احتساب ہوگا تو سب کا ایک ہی قانون اور اصول اور ضابطہ کے تحت اور اگر کسی کو ریاست معاف کرے گی تو وہ بھی سب پر یکساں طور پر لاگو ہوگا ’’احتساب سب کا‘‘ یہی اصول ریاست کو اپنانا ہوگا۔

تازہ ترین