• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب فنانس بل کی کاپی پارلیمنٹ سے پاس ہونے کے بعد منظر عام پر آئی تو علم ہوا کہ عوام پر دیگر بہت سے ٹیکسز عائد کیے جانے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں پر لیا جانے والا انکم اور ایڈوانس ٹیکس، جو پہلے پوری گاڑی پر وصول کیا جاتا تھا، اب ہر سیٹ پر لگا دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ چار سیٹر گاڑی کے لیے انکم اور ایڈوانس ٹیکسز چار سو فیصد بڑھ گئے ہیں۔ انکم ٹیکس سالانہ ادا کیا جاتا ہے جبکہ ایڈوانس ٹیکس گاڑی خریدتے اور ٹرانسفر کراتے وقت حکومت کی جانب سے وصول کیا جاتا ہے۔ مذکورہ محکمے کی جانب سے جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، اس سے بھی یہ کنفیوژن پیدا ہو گئی کہ اب ایڈوانس ٹیکس بھی سالانہ بنیادوں پر لیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ایکسائز کے ٹوکن ٹیکس ریٹ میں بھی کئی گنا تک اضافہ کیا گیا جبکہ صوبے اپنے ٹوکن ٹیکس ریٹ کو خود مقرر کرتے ہیں۔

گاڑیوں کے حوالے سے جب اس قدر ٹیکسز کی خبریں سامنے آئیں تو بہت سی نیوز ویب سائٹس، معروف بلاگز، سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز نے اپنے اپنے طور پر خبریں شائع کرنا شروع کر دیں۔ ان ٹیکسز کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں اس خاکسار کا نام بھی شامل تھا۔ جب تمام حساب کتاب کے بعد اعداد و شمار سامنے آئے تو یہ عیاں ہو گیا کہ یہ نئے ٹیکس عوام کے لیے قطعی ناقابل قبول ہیں لہٰذا اس حوالے سے سوشل میڈیا پر سخت ریکشن سامنے آیا۔ میں نے بھی اس حوالے سے دو ایک وڈیو لاگ بنائے جن میں نئے ٹیکسز کے حوالے سے بتایا مگر اگلے روز پی ٹی آئی کے آفیشل سوشل میڈیا پیجز پر کہا گیا کہ یہ سارے لوگ ڈس انفارمیشن پھیلا رہے ہیں، گاڑیوں کے ٹیکسز میں کسی بھی قسم کا اضافہ نہیں ہوا، صرف نان فائلرز کیلئے ٹیکس دگنا کیا گیا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ ان آفیشل چینلز نے مجھے خصوصی طور پر ٹارگٹ کیوں کیا۔ ہمارے حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ یہ لوگ اپوزیشن کے ساتھ مل کر گاڑیوں کے ٹیکسوں پر پروپیگنڈا کر رہے اور افواہیں پھیلا رہے ہیں۔

دوسری طرف سوشل میڈیا پر کافی لوگوں نے اپنی گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس کی تصویریں بھی شیئر کرنا شروع کر دیں جن سے اضافہ شدہ ٹیکس وصول کیا جا رہا تھا۔ ایک آٹھ لاکھ کی گاڑی لینے والے نے محض گاڑی کی رجسٹریشن کے لیے ایک لاکھ 40ہزار سے زائد ٹیکس ادا کیا۔ اس طرح کی کئی مثالیں سامنے آئیں۔ اس پر لوگ برملا یہ کہنا شروع ہو گئے کہ ہم یہ ٹیکس کسی صورت نہیں دیں گے۔ جب یہ معاملہ زیادہ اٹھا تو ایف بی آر کی طرف سے یہ وضاحت سامنے آئی کہ دراصل ٹائپنگ کی غلطی کی وجہ سے گاڑی کے ٹیکس کو ’’پر سیٹ‘‘ لکھا گیا تھا۔ ویسے تو ٹائپنگ کی غلطی میں عموماً لفظ بدل جاتا ہے یا کوئی لفظ مِس ہو جاتا ہے لیکن یہ ایک انوکھا کیبلری فونٹ جیسا واقعہ ہے جس میں ٹائپنگ کی غلطی کے باعث غلط ٹیکسز بالکل صحیح طریقے سے درج کیے گئے۔ بعد ازاں فنانس ایکٹ میں اس کو ٹھیک کر دیا گیا لیکن اس وقت‘ جب یہ کالم تحریر کیا جا رہا ہے، پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے فنانس بل جو ایف بی آر کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے، میں ابھی تک یہ ٹیکس ’’پر سیٹ‘‘ کے حساب سے درج ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی ٹائپنگ کی غلطی تھی یا یوٹرن؟ تمام صحافیوں اور ان تمام لوگوں نے، جنہوں نے اس مسئلے کی نشاندہی کی اور اس کو عوام کے سامنے لائے، فنانس بل میں موجود اعداد و شمار کی بنیاد پر ہی حساب کتاب کیا تھا۔ ایکسائز حکام نے خود جو گاڑیاں بڑھے ہوئے ٹیکس ریٹس کے ساتھ رجسٹرڈ کی تھیں، وہ بھی فنانس بل میں ترمیم کے بعد عائد کیے جانے والے ٹیکس کے حوالے سے ہی کی تھیں۔ صحافیوں کا کام یہی ہوتا ہے کہ حکومت جو دستاویزات جاری کرتی ہے، ان کو سمجھ کر عوام کو آسان الفاظ میں بتائیں۔ اس معاملے میں بھی بالکل ایسا ہی ہوا، جو ٹیکسز حکومتی فنانس بل میں موجود تھے، وہی ٹیکسز صحافیوں نے عوام کو بتائے اور وہی ایکسائز حکام نے وصول بھی کیے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بل میں واقعی ٹائپنگ غلطی ہو گئی تھی تو مس انفارمیشن حکومت پھیلا رہی تھی یا صحافی؟ غلطی حکومت کی تھی یا ان لوگوں کی جنہوں نے اس کی نشاندہی کی؟

دوسری جانب اگر اس حوالے سے کوئی وضاحت آنا تھی تو وہ متعلقہ حکومتی حکام کی طرف سے آنا چاہئے تھی۔ ایک سیاسی جماعت کا سوشل میڈیا سیل نہ تو حکومت کی ترجمانی کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے ایسا زیب دیتا ہے، بالخصوص تب جب حکومت صرف ایک پارٹی کی نہ ہو۔ اس ساری مشق سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کا سوشل میڈیا سیل چلانے والوں کے درمیان کسی قسم کی کوآرڈی نیشن بھی نہیں ہے۔

اب جب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ غلطی فنانس بل میں تھی تو بھی اس پر کسی قسم کی معذرت نہ تو پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کی طرف سے سامنے آئی ہے اور نہ ہی ان لوگوں کی جانب سے جنہوں نے صحافیوں پر پروپیگنڈا کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بجٹ بل میں اتنی بڑی غلطی ہونا، جس سے لوگوں کا لاکھوں کا نقصان ہوا، اپنی جگہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جن لوگوں سے اضافی ٹیکس وصول کیا گیا ہے، جلد ان کو یہ رقم لوٹانے کی بھی منصوبہ بندی کی جائے گی۔ اور یہ بھی امید رکھتا ہوں کہ آئندہ مس انفارمیشن کے الزامات لگانے سے قبل حکمران جماعت کا سوشل میڈیا سیل چلانے والے اپنی حکومت سے اصل بات معلوم کر لیں گے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین