• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے قرضے اتارنے کے لیے ایک او ربڑا قرضہ حاصل کرنے کی کامیابی نصیب ہوئی ہے ۔ عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف ) کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالرز کے قرض پروگرام کی منظوری دے دی ہے ۔ اس منظوری سے پاکستان کو قرض دینے والے دیگر عالمی اداروں او رملکوں کی جانب سے رُکے ہوئے 38 ارب ڈالرز کی بحالی بھی شروع ہو جائے گی ۔ یعنی مزید 38 ارب ڈالرز کا قرضہ بھی ملے گا۔ اس طرح پاکستان کو مختصر عرصے میں ایک ساتھ اپنی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ حاصل ہو گا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اسے اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے اور یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اس سے ملک معاشی بحران سے نکل آئے گا ۔ گزشتہ دس سال کے دوران حاصل کردہ قرضوں اور ان کے استعمال کی تحقیقات کے لیے تحریک انصاف کی حکومت نے کمیشن قائم کر دیاہے لیکن صر ف 10 ماہ میں تحریک انصاف کی حکومت نے جو قرضہ حاصل کیاہے یا قرضہ حاصل کرنے کے معاہدے کیے ہیں ، وہ گزشتہ دس سال کے قرضے سے بہت زیادہ ہیں ۔ اس کے لیے تحریک انصاف کے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں نے غیر ضروری قرضے لیے اور ان کا غلط استعمال کیا ، جس کی وجہ سے ملک معاشی بحران کا شکار ہوا۔ اس لیے مختصر مدت میں ایک ساتھ تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لینے کی ضرورت پڑی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے بعد قرضے لینے کی ضرورت نہیں ہو گی ؟ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے وزیر خزانہ اسد عمر کو ہٹا دیا ہے ، جو کہ کہتے تھے کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہو گا۔ ان کے بعد کسی نے یہ بات کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنی معاشی ٹیم کو ہٹا کر آئی ایم ایف کی ٹیم لائی ۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ سمیت کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہے یا آخری قرضہ ہے۔

انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ ماضی میں آئی ایم ایف کے لوگ ہر پروگرام کے بعد یہی کہتے تھے کہ پاکستان معاشی بحران سے نکل آئے گا ۔ ماضی کے حکمران آئی ایم ایف کے لوگوں کے ساتھ سر نہیں ملاتے تھے اور پروگرام کے خلاف کچھ نہ کچھ مزاحمت کرتے تھے ۔ اس مرتبہ حالات قطعی برعکس ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ بے تحاشا قرضے سے بے انتہا پر امید ہیں ۔ اسداللہ خان غالب کایہ شعر ان پر زیادہ صادق آتا ہے کہ ’’ قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں ۔۔۔ رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن ‘‘ اب آئی ایم ایف والے یہ بات نہیں کر رہے ہیں۔ اگلے روز اسلام آباد میں ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی اور وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ایک ایسی بات کہی ، جس پر بہت کم لوگوں نے غور کیالیکن یہ بات ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے ۔ ان کاکہنا یہ تھاکہ پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف پروگرام کی طرف گیا ہے ۔ ماضی میں بھی کئی مرتبہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا لیکن بہتر مالیاتی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی پروگرام کا طویل المیعاد فائدہ حاصل نہ ہو سکا۔ اب بھی اگر اس پروگرام کا طویل المیعاد فائدہ نہ ہوا یا معاشی بحران سے نکلنے کی منصوبہ بندی نہ ہو سکی تو بہت مشکلات ہوں گی ۔ یہ باریک بات انہوں نے ریکارڈ درست رکھنے کے لیے کہہ دی ہے ۔

آئی ایم ایف کے فرسٹ ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر ڈیوڈلپٹن نے تو ڈاکٹر حفیظ شیخ سے زیادہ کھل کر بات کر دی ہے ۔ ان کاکہنایہ ہے کہ پاکستان سخت معاشی مسائل سے دوچار ہے ۔ آئی ایم ایف کا قرضہ پاکستان کے دیرپا پالیسی مسائل سے نمٹنے میں مدددے گا لیکن فوری طور پر معاشی پالیسی میں بہتری کے بغیر پاکستان کے معاشی و مالیاتی استحکام کو خطرہ ہے ۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنا ممکن نہیں رہے گا ۔ ڈیوڈ لپٹن نے معاشی پالیسی میں بہتری کے لیے جو تجاویز دیں ، ان پر عمل درآمد کی پاکستان کے مالیاتی نظام میں صلاحیت ہی نہیں ہے کیونکہ اس نظام میں خرابیوں کی بھی انہوں نے نشاندہی کی ہے ۔

1988 ء کے بعد یہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا 13 واں پروگرام ہے ۔ پہلے پروگرام میں جو شرائط عائد کی گئی تھیں ، وہ شرائط آج بھی الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ وہی ہیں ۔ یعنی اسٹرکچرل ریفارمز ، زیادہ سے زیادہ ٹیکسوں کا حصول ، کرنسی کو آزاد کرنے ، بجلی ، گیس اور دیگر یوٹیلٹیز پر حکومتی کنٹرول ختم کرنے کی ایک جیسی شرائط پہلے پروگرام سے آخری تک چل رہی ہیں ۔ فرق صر ف یہ ہے کہ ماضی کی حکومتیں لوگوں پر بوجھ ڈالنے او ران کے احتجاج اور چیخ و پکار کو خاطر میں لاتی تھیں ۔ اب ایسا نہیں کیا جارہا ۔ آئی ایم ایف کاکہنایہ ہے کہ سخت فیصلے کرنا ہوں گے ۔ چیخ و پکار نہ سنی جائے ۔ اسے حکومت اپنی کارکردگی سے تعبیر کر رہی ہے ، جیسے وہ احتساب اور پکڑ دھکڑ کو اپنے ایجنڈے سے تعبیر کرتی ہے ۔ نئے پاکستان میں وہی پرانا ایجنڈا زیادہ سختی کے ساتھ نافذ کیا جا رہا ہے۔ دنیامیں ہر جگہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہر پروگرام نے مزید تباہی پھیلائی ہے ۔ اس مرتبہ پاکستان میں معاشی ترقی کاجو ابھار پیدا ہوا تھا ، اس سے ہوا نکل رہی ہے او رپاکستان کو نئی علاقائی اور عالمی صف بندی سے جو نئے مواقع ملے تھے ، اس سے دستبردار ہونے کے لیے آئی ایم ایف کا 13 واں پروگرام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس کھلے بیان کے بعد مرتب کیاگیاہے ، جس میں انہوں نے کہا تھاکہ آئی ایم ایف کا پیسہ سی پیک پر خرچ نہ ہو ۔ یاران نکتہ دان آگے چل کر زیادہ واضح بات کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے ۔ قرض کی مے کا اس مرتبہ نشہ کچھ زیادہ ہے ۔

تازہ ترین