• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی حکومت کا دارومدار اداروں پر ہوتا ہے جن کی کارکردگی حکومت کی کامیابی و ناکامی کی وجہ بنتی ہے۔ پاکستانی اداروں یا محکموں میں سیاسی مداخلت کے باعث جو خرابیاں در آئیں ،وہ سب پر عیاں ہیں۔ محکمہ پولیس ہی دیکھ لیں کوئی بھی حکومت اس کا قبلہ درست نہ کر سکی۔ خوش کن اطلاع یہ ہے کہ وفاقی کابینہ نے حکومتی اداروں کی تنظیم ِ نو کی منظوری دیدی ہے۔ بڑے پیمانے پر تنظیم نو کے اس منصوبے کے تحت 441میں سے 325اداروں کو برقرار رکھا جائے گا، ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ادارہ جاتی اصلاحات پر ٹاسک فورس کی سفارش پر کابینہ نے 43سرکاری اداروں کی سرمایہ پاکستان لمیٹڈ میں منتقلی یا نجکاری کی منظوری دی ہے۔ 15ادارے صوبائی حکومتوں، اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری اور گلگت بلتستان کو منتقل ہوں گے جبکہ 8ادارے تحلیل یا بند ہوں گے۔ 32اداروں کو آپس میں ضم کر دیا جائے گا۔ منظور شدہ تنظیم نو منصوبے کو برئوے کار لانے کیلئے عملدرآمد کمیٹی متعلقہ محکموں کے سیکرٹریز پر مشتمل ہوگی جس کے چیئرمین سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ہوں گے، حکومت کو اس عمل سے اربوں روپے بچت کی توقع ہے۔ وطن عزیز کی موجودہ صورتحال بلاشبہ سخت لیکن شفاف فیصلوں کی متقاضی ہے۔ جہاں تک محکموں یا اداروں کی بات ہے تو ان میں سے متعدد ایسے ہیں جو جدت کے باعث بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ مثلاً محکمہ’’ انسدادِ بے رحمی حیوانات‘‘ اس وقت تک ٹھیک تھا جب بار برداری کے لئے گھوڑوں، گدھوں اور بیلوں وغیرہ سے کام لیا جاتا تھا، اب یہ کہاں ہے اور اس کے فرائض کیا ہیں؟ ایسے ہی بہت سے محکمے ہیں جن کے نام بھی عام آدمی نے نہ سنے ہوں گے لیکن وہ ملکی خزانے پر بوجھ ہیں، تاہم جن اداروں کو تحلیل یا بند کرنا مقصود ہو ان کے ملازمین کو ان دوسرے محکموں میں ٹرانسفر کر دیا جانا چاہئے جن کے پاس اسٹاف کی کمی ہے تاکہ بیروزگاری نہ بڑھنے پائے۔ اداروں کی تنظیم نو انتہائی اہم اور خوش آئند پیش رفت ہے۔ ان میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر زیادہ سے زیادہ توجہ مبذول کی جائے تو کرپشن کی شرح میں کمی ممکن ہے۔ امید ہے کہ حکومت کا یہ اقدام ملک و قوم کیلئے مبارک ثابت ہوگا۔

تازہ ترین