• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے چند ماہ سے میں ایک تضاد سا دیکھ رہا ہوں۔ ویسے تو ہماری حکومت، سیاسی جماعتوں اور تو اور معاشرے میں بہت سے تضادات نظر آتے ہیں لیکن یہ تضاد حکومت اور اپوزیشن دونوں کے بیانیے اور عوام کے حقیقی مسائل کا مابین تفاوت کا ہے۔ پہلے میڈیایکطرفہ ہوتا تھا اور براہ راست لوگ اپنی رائے کا اظہار نہیں کر پاتے تھے، اسی لیے حکومتیں بھی اپنی مرضی سے ایجنڈا سیٹ کر لیتی تھیں پھر بیشتر لوگ سوشل میڈیا جیسے دوسرے ذرائع سے اپنے خیالات کا اظہار کر لیتے تھے مگر اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ آخر کتنے فیک اکائونٹس بنائے جا سکتے ہیں جن سے کروڑوں لوگوں یعنی عوام کی رائے کو دبایا جا سکے۔حکومتی ترجیحات سے تو ہم سب واقف ہیں کہ ’’چوروں، ڈاکوئوں‘‘ اور منی لانڈرنگ نے پاکستان کو تباہ کر دیا اور ’’ہم انہیں نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ دوسری طرف اپوزیشن یا تو ہر وقت اپنے اوپر بنائے گئے کیسز کی صفائی دیتی رہتی ہے یا سلیکٹڈ کی گردان الاپتی رہتی ہے، حقیقی معنوں میں عوامی مسائل کی ترجمانی وہ بھی نہیں کر پا رہی۔

اس وقت ملک کے جو حالات ہیں ان میں تین چیزیں بڑی اہم اور ماضی سے قدرے مختلف ہیں۔ ایک تو ہماری معیشت، جو اس وقت سخت دباؤ میں ہے اور معاشی بدحالی کے باعث لوگوں کے لئے روزگار کمانا اور زندگی کی گاڑی کو چلانا شدید مشکل ہو رہا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ براہ راست ٹیکسز، بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافے اور بڑھتی مہنگائی کی شکل میں عوام پر دباؤ ڈالنے میں حکومت کا براہ راست بہت بڑا کردار ہے۔ اگرچہ محصولات بڑھائے بغیر حکومت کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں لیکن عوام کے دکھ میں شریک نہ ہونا اور ان کے درد کو پوری طرح محسوس نہ کرنا کسی بھی طور حکومت کے فائدے میں نہیں۔ تیسری اور شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب عوام کے ہر طبقے میں پہلے سے کئی گنا زیادہ آگاہی آگئی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کے الیکشن سے پہلے کے وعدوں اور آپ کے آج کے فعل میں اتنا تضاد کیوں ہے؟ کیا کوئی ایسا دن گزرا ہے کہ مہنگائی کے خلاف جنگ حکومت کی ترجیحات میں نظر آئی ہو؟ کیا لوگوں کے ریلیف سے متعلق کسی پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا؟ یہاں تو لوگوں کے گھر تک گرا دیئے گئے اور کسی نے خبر نہیں لی۔وفاقی دارالحکومت میں پچھلے چند روز سے جو چھوٹے چھوٹے کھوکھے کئی سالوں سے چل رہے تھے، جہاں سے غریب لوگ کھانا کھاتے تھے، ان کو بھی گرا دیا گیا۔ دفتروں میں کام کرنے والا نچلا طبقہ اب پریشانی کا شکار ہے کہ ان کے کھانے کے لئے وفاقی دارالحکومت میں کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔اسی طرح ہفتے کے روز جب ملک بھر کے تاجروں نے ہڑتال کی تو ان کو ’’مافیا‘‘ اور ’’ٹیکس چور‘‘ کہا گیا، جبکہ تاجروں کے بقول ان کے مطالبات سنجیدگی سے نہیں سنے گئے اور انہیں یہ تاثر دیا گیا کہ اب یہی ہوگا، جو کرنا ہے کر لو۔ یہ طرزِ حکمرانی قطعاً حکومت کو زیب نہیں دیتا۔

عوام جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اب پہلے جیسے نہیں رہے، اب وہ سوال کرتے ہیں۔ چند روز پہلے جب صادق آباد میں ٹرین حادثہ ہوا تو سوشل میڈیا پر عمران خان کے پرانے بیانات گردش کر رہے تھے کہ حقیقی جمہوریت میں جب کوئی ٹرین حادثہ ہوتا ہے اور اس کی تحقیقات ہو رہی ہوں تو وزیر کو استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب یہ بیان دیا گیا اس وقت وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق تھے اور اب وزارتِ ریلوے عمران خان کے اتحادی شیخ رشید کے پاس ہے۔

ایسے حالات میں عوام سوچتے ہیں کہ چند لوگوں کے پروڈکشن آرڈرز کا مسئلہ وزیراعظم پاکستان کے لئے اتنا اہم کیوں ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ رانا ثناء اللہ کی گرفتاری، ایون فیلڈ کے اپارٹمنٹس اور زرداری صاحب کا پارک لین کیس وغیرہ حکومت کی توجہ کے زیادہ حقدار بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کو کوئی احتساب سے روک رہا ہے اور نہ یہ کہہ رہا ہے کہ احتساب نہیں ہونا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا احتساب عوام کو درپیش مسائل سے زیادہ ضروری ہے؟ بالخصوص وہ مسائل جن کی وجہ سے ان کی زندگی اس وقت اجیرن بنی ہوئی ہے؟ آپ احتساب کریں، ضرور کریں لیکن عوام کو ریلیف، امید اور سہارا بھی تو دیں۔

کسی بھی جمہوری حکومت کی بنیاد اس جملے سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ایک حکومت جو عوام کی ہو، عوام کی طرف سے ہو اور عوام کے لیے ہو۔ تمام تر وسائل، توانائیاں اور حکومتی بیانیہ اگر عوام کے مسائل کے اردگرد گھومے گا تو حکومت یقیناً مقبولیت حاصل کرے گی۔ پاکستان کے اصل مسائل سیاسی نہیں، بلکہ گورننس سے متعلق ہیں۔ اگر جنون کی حد تک ہر بندے کو ’’چور، ڈاکو‘‘ یا ’’لٹیرا‘‘ کہہ کر حقیقی مسائل کے حل میں اپنی ناکامیوں کو چھپایا جائے گا تو لوگ ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ حکومت کس کے لئے ہے، یہ عوام کے لئے ہے بھی یا نہیں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین