• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نشتر پارک‘‘ اس پا رک نے ملک کی سیاست میں کئی سیاسی تاریخیں رقم کیں

فہیم احمد

سولجر بازار کے تقریباً وسط میں ایک پارک ہوتا تھا، یہ پارک جو کبھی پٹیل پارک تھا اب نشتر پارک ہے۔یہ پارک معروف مسلم لیگی رہ نما سردار عبدالرب نشتر کے نام سے منسوب ہے۔ اس کی تصدیق نام ور صحافی عبدالحمید چھاپرا نے بھی کی۔ ان کا کہنا تھا اس پارک کا نام ’پٹیل پارک ‘کانگریسی رہ نما ولبھ بھائی پٹیل کے نام پر رکھا گیا تھا جو ایک بڑے اور معروف سیاست دان تھے۔زاہد چوہدری اپنی کتاب’’ پاکستان کی سیاسی تاریخ ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ولبھ بھائی پٹیل متحدہ ہندوستان کے حق میں نہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلم اکثیریتی علاقوں پر مشتمل کٹی پھٹی ریاست بن جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ولبھ بھائی پٹیل کے مسلمانوں کے بارے میں خیالات کا ذکر جوش ملیح آبادی اپنی کتاب’’ یادوں کی برات‘‘ میں یوں کرتے ہیں۔ "آج کل" کی ادارت سنبھالنے کے بعد جب ایک روز پنڈت جی (جواہر لعل نہرو) سے ملنے گیا تو انھوں نے پوچھا کہ’’ آپ اپنے محکمے کے وزیر سردار پٹیل سے اب تک ملے کہ نہیں۔ ‘‘میں نے کہا،’’ نہیں، اور نہ ملنے کا ارادہ ہے، پنڈت نے پوچھا کیوں میں نے انگریزی میں جواب دیا کہ because he has got a criminal face (اس لیے کے ان کا چہرہ مجرموں کا سا ہے)۔ یہ سن کر پنڈت جی نے زبردست قہقہہ لگایا، پھر مجھ سے کہا، نہیں،نہیں، آپ کو ان سے ضرور مل لینا چاہئے۔ میں ابھی فون پر آپ کی ملاقات طے کیے لیتا ہوں۔ انھوں نے فون کیا ،جواب آیا، ابھی روانہ کردیجئے۔ میں ان کی کوٹھی پر پہنچا، وہ دھوتی باندھے، برآمدے میں کھڑے ہوئے تھے۔ میں نے ہاتھ ملاتے ہی ان سے کہا سردار صاحب مجھے آپ سے ملنے کا ایک خاص وجہ سے بڑا اشتیاق تھا۔ وہ بڑے گھاگ آدمی تھے، "خاص وجہ" سن کر بھانپ گئے اور پوچھا آپ کو مجھ سے ملنے کا کیوں اشتیاق تھا، میں نے کہا اس لیے کہ میں آپ کی بہت برائیاں سن چکا ہوں۔یہ سن کہ وہ مجھے کمرے میں لے گئے، بیٹھتے ہی انہوں نے انگریزی میں کہا، آپ نے یہ سنا ہوگا کہ میں مسلمانوں کا دشمن ہوں۔ آپ جس قدر برہنہ گفتار آدمی ہیں، اُسی قدر میں بھی ہوں۔ اس لیے آپ سے صاف صاف کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں کی بڑی عزت کرتا ہوں ،جن کے خاندان باہر سے آکر یہاں آباد ہوگئے ہیں۔ لیکن میں ان مسلمانوں کو پسند نہیں کرتا جن کا تعلق ہندو قوم کے شودروں اور نیچی ذاتوں سے تھا۔ مسلمانوں کی حکومت کے اثر میں آکر انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، یہ لوگ دراصل نہایت متعصب، شریر اور فسادی ہیں۔ اقلیت میں ہونے کے باوجود ہندو اکثریت کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں۔کیا انسان تھے ولبھ بھائی پٹیل نفرت میں بھی طبقاتی فرق رکھتے تھے۔

ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہونے والے مسلمانوں کو غالباً سردار پٹیل کے ان خیالات کے بارے میں کوئی آگہی نہیں تھی۔ اس وقت جوش صاحب کی’’ 'یادوں کی بارات‘‘ بھی شائع نہیں ہوئی تھی، مگر یہ ایک حقیقت ہے کے ان کے مسلمانوں کے بارے میں خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔شاید یہی وجہ تھی کہ 11 اکتوبر 1965ء کو ایک مراسلے کے ذریعے چیف افسر کراچی میونسپلٹی نے کمشنر کراچی کو لکھا کہ "وہ اعزاز کے ساتھ یہ بیان کرتے ہیں کہ آل پاکستان مسلم لیگ نیشنل گارڈ کراچی نے ایک قراردا1965 کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ پٹیل پارک کا نام تبدیل کرکے سردار عبدالرب نشتر پارک رکھا جائے ۔یہ معاملہ کمشنر کراچی کو ان تحفظات کے ساتھ روانہ کیا گیا ہے کہ مبادا اس نام کی تبدیلی سے ہندوستانی حکومت کے ساتھ کوئی اختلافات پیدا ہوجائیں"۔کمال ہے اُس وقت کے ایک سرکاری ملازم کو یہ احساس تھا کہ اس طرح کے کاموں سے دو پڑوسی ممالک کے درمیان بدگمانیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ سو جناب پٹیل پارک، نشتر پارک ہوگیا۔ اب یہاں ایک اور مسئلہ ہے۔ 1941ء اور 1971ء کراچی کے علاقے جمشید کوارٹرز کے نقشے میں یہ پارک تو موجود ہے، مگر اس کا نام پٹیل پارک یا ولبھ بھائی پٹیل پارک نہیں ہے۔ اس کا نام وٹھل بھائی پٹیل پارک ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ وٹھل بھائی کون تھے؟وٹھل بھائی ولبھ بھائی کے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ بھی ایک بڑے سیاست دان تھے۔ لیکن ان کی گاندھی جی سے نہیں بنتی تھی۔ وہ گاندھی جی پر سخت تنقید کرتے تھے۔ وہ نامور انقلابی رہنما سبھاش چندر بوس سے بہت زیادہ متاثر تھے، انہوں نے اپنی جائیداد فروخت کرکے ایک لاکھ بیس ہزار سبھاش چندر بوس کے حوالے کئے تھے، تاکہ وہ اسے ہندوستان کی سیاسی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کرسکیں۔ ان کے بڑے بھائی سردار ولبھ بھائی پٹیل اور مہاتما گاندھی نے اس رقم کی وصولی کے لیے بمبئی ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی تھی۔چلیں کچھ بھی ہے۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل تو نفرت میں بھی ذات پات کے قائل تھے۔ لیکن ہم نے اُن کے بھائی کے نام سے منسوب پارک کا نام سردار عبدالرب نشتر پارک رکھا۔ جہاںماضی میں انگریز فوجیوںکوپریڈ کرا ئی جاتی تھی اوروہ یہاں کر کٹ بھی کھیلتے تھے کیونکہ یہ پارک سولجر بازار کے وسط میں پارسی کا لو نی میں واقع تھا اور اس کے چاروں اطراف پارسی برادری کے تعلیم یافتہ اور نفیس لوگ رہا کر تے تھے، جنہوں نے انگریزوں سے کر کٹ کا کھیل سیکھنے کے بعد خود کرکٹ کھیلنا شروع کردی تھی ،لہذا یہاں بڑے پیما نے پر ناصرف کرکٹ کھیلی جاتی تھی بلکہ اس پارک کے اندرماضی میں فرسٹ کلاس میچز بھی کھیلے جاتے تھے، اس وقت تک یہ پارک سرسبز و شاداب تھا، جہاں دوسری قومیتوں اور مذاہب کے نمائندے باقاعدہ طور پر تقریبات منعقد کرتے تھے۔اس کے بعد گویا یہ پارک اجڑ سا گیا اور یہاں نام کو ہریالی نہیں رہی بلکہ ایک بنجر پارک بن گیا،مگر اس اجڑے پارک نےملک کی سیاست میں ناصرف کئی سیاسی تاریخ رقم کی بلکہ انقلاب برپا کئے۔1964 میں جب ایوب خان نے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا تو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اسی پارک سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ جبکہ ماضی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمٰن، مولانا مودودی، مولانا بھاشانی، مولانا مفتی محمود، نواب زادہ نصراللہ خان، بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا شاہ تراب الحق سمیت بڑے بڑے رہنمائوں نے یہاں بڑے بڑے جلسے کیے اور اس پارک کے اندر ملک کی سیاست کے حوالے سے اہم فیصلے بھی کیے۔ اس کے بعد سے یہ پارک لندن کے اس ہائیڈ پارک کی طرح بن گیا، جہاں بولنے کی آزادی ہواسی لئے یہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے جلسے منعقد ہوتے رہے بلکہ اس پارک میں کئی سیاسی پارٹیوں کا جنم ہوا ۔ اس پارک میں 60 اور 70 کی دہائی میں سیاسی جلسے ہوتے تھے لیکن اب یہاں میلاد اور مجالس عزا منعقد ہوتی ہیں۔نشتر پارک کراچی جو کہ انگریزوں کے دور میں قائم ہوا، وہاں چند پرانی پتھروں کی رہائش گاہیں اور اس کے کونے میں انگریز فوجیوں کے بیٹھنے کےلیے بنائی گئی جگہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور اب یہ صرف ایک میدان کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس کے اطراف میں ماضی میں پارسیوں کے بنگلوں کی جگہ فلیٹوں نے لے لی ہے، جبکہ سندھ کے قوم پرست لیڈر جی ایم سید کی رہائش گاہ حیدر منزل اب تک موجود ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر کراچی کے اس ہائیڈ پارک کی تعمیر وترقی کر کے اس تاریخی اثاثے کو یاد گار بنایا جائے ۔

تازہ ترین