• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت نے یکطرفہ نظرثانی کی تو لندن کی ثالثی عدالت سے رجوع کرینگے،آئی پی پیز

اسلام آباد (خالد مصطفیٰ )حکومت نے آگر پاور پرچیز ایگریمنٹس پر یکطرفہ نظرثانی کی تو آئی پی پیز (پی پی ایز) اپنے معاہدہ جاتی حق کے تحت یقیناً لندن کی ثالثی عدالت سے رجوع کرے گی۔ استفسار پر حبکو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور ممبر انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز ایڈوائزری کونسل (آئی پی پی اے سی) خالد منصور نے کہا کہ وہ قانون کے مطابق چلیں گے۔ پیر کو دیگر آئی پی پیز کے ساتھ میڈیا سے بات چیت میں اس پروپیگنڈے پر کہ آئی پی پیز بھاری منافع کمانے کے ساتھ ناقابل برداشت ٹیرف کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے اپنے جوابی بیانیہ میں کہا کہ بجلی کے پیداواری ادارے بھاری منافع نہیں کما رہے بلکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ خالد منصور نے قرضوں پر انکوائری کمیشن کی جانب سے طلبی پر کہاکہ انہیں اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تاہم آئی پی پیز اپنے مؤقف کی وضاحت کے لئے ہر فورم پر پیش ہو اور تحقیقات کا سامنے کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نیب، نیپرا اور اس سے کہیں زیادہ اہم عدالتوں نے تحقیقات کیں اور اس معاملے میں سرگرم رہیں اب قرضوں پر قائم کمیشن کی جانب سے طلبی کا جواز سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا ہم کمیشن کو مطلوب تمام تفصیلات جلد جمع کرادیں گے۔ قرضوں پر کمیشن آئی پی پیز کے معاملے میں بین الاقوامی ماہرین کا پینل تشکیل دے گا۔ خالد منصور نے اپنے کیس کی وضاحت کے لئے متعلقہ سینیٹ کمیٹی کے روبرو پیش ہونے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ ایک سوال کے جواب میں سی ای او حبکو کا کہنا تھا کہ 22 آئی پی پیز کے حکومت پر 370ارب روپے شامل ہیں جبکہ مجموعی واجبات 86ارب روپے تک کے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز آڈٹ کے لئے تیار ہیں تاہم پاور پالیسی اس حوالے سے خاموش ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ آئی پی پیز نے زیادہ سرمایہ کاری کے ذریعہ اپنے پلانٹس کی صلاحیت اور استعداد میں اضافہ کیا جس کی وجہ سے منافع بھی بڑھ گیا۔ لیکن اس معاملے میں معاہدے اور پاور پالیسی کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ منافع میں اضافہ بہتر مینجمنٹ اور گورننس کی وجہ سے ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کی جانب سے آئی پی پیز کے 61فیصد منافع کی بات درست نہیں ہے کیونکہ بہت کچھ انشورنس اور قرضوں کی ادائیگی کی مد میں چلا جاتا ہے اور آئی پی پیز کا منافع 15 فیصد رہ جاتا ہے۔ خالد منصور نے بتایا کہ اس معاملے میں مفاہمت کا سنگین خسارہ ہے جس کی وجہ سے غیر معمولی منافع کے جھوٹے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔ ان کے مطابق گردشی قرضے کی بنیادی وجہ بڑھتے ہوئے ٹرانسمیشن اورڈسٹری بیوشن نقصانات ہیں۔ بجلی چوری بھی ہوتی ہے سرکاری پاور جنریشن (جینکوز) کی نااہلیت اور ڈسکوز کی جانب سے صارفین سے انتہائی کم وصولیاں ہیں۔ گردشی قرضے کا زیادہ تر خمیازہ آئی پی پیز کو بھگتنا پڑتا ہے۔ صارفین کے لئے پاور ٹیرف میں اضافے کی بنیادی وجہ بجلی کی ترسیل و تقسیم میں نقصان اور ٹیکسیشن ہے۔
تازہ ترین