• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد سعید

کراچی کا شمار اگرچہ پاکستان کے تاریخی اور قدیم شہروں میں نہیں ہوتا ،تاہم اس شہر میں چند مزارات ایسے ہیں ،جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ شہر صدیوں پرانا ہے ۔ شہر قائد کے ان قدیم مزارات میں سے ایک مزار عبدالله شاہ غازی کا اور دوسرا ان کے بھائی مصری شاہ کا ہے۔

عبدالله شاہ غازی کا مزار شہر کا سب سے قدیم مزار بھی ہے ۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ 98 ہجری میں پیدا ہوئے ۔ آپ تبلیخ کے لئے 138 ہجری میں یہاں آئے جبکہ آپ کا سال وفات 151 ہجری ہے ۔ آپ کراچی کے علاقے کلفٹن کی ایک پہاڑی پر مدفون ہیں آپ کا عرس ہرسال بیس سے بائیس ذوالحج کو منایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کراچی کی تاریخ تقرییا 1300 سال قدیم بنتی ہے لیکن اس کے بعد کے واقعات کا تاریخ میں کوئی حوالہ نہیں۔ فاتح سندھ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد 712 عیسوی یعنی 93 ہجری میں ہوئی ۔ محمد بن قاسم کی فوج، جس بندرگاہ پر اتری وہ دیبل کہلاتا تھا محمد بن قاسم نے جو علاقے فتح کئے ان میں کراچی کے کچھہ علاقے بھی شامل تھے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کراچی سندھ کا حصہ نہیں تھا ۔

کراچی کے عروج کا دور برطانوی راج میں شروع ہوا ۔انگریزوں نے تین فروری 1839ء کو اس پر قبضہ کیا اور تین سال بعد اسے ضلع کا درجہ دیدیا۔ جو ترقی کرتے کرتے آج موجودہ شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔

لگ بھگ 1772ء میں اس علاقے سے بحرین اور مسقط کے ساتھ تجارت کا آغاز ہوا،جس کے بعد یہ علاقہ ایک بڑی بندرگاہ کے طور پر ابھرنا شروع ہوا اور ایک بڑا تجارتی مرکز بن گیا ۔ اس دور میں شہر کے گرد ایک فصیل تعمیر کی گئی تھی، جس کے دو دروازے تھے ۔ ایک کا رخ سمندر کی جانب تھا ،جسے کھارو در یا کھارا در جبکہ دوسرے کا رخ لیاری دریا یا لیاری ندی کی جانب تھا ،جسے میٹھودر یا میٹھا در کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ دروازے آج موجود نہیں ہیں لیکن اسی مقام پر کھارا در اور میٹھادر کے نام سے دو علاقے ضرور موجود ہیں ۔

1795ء تک یہ علاقہ ریاست قلات کے زیرتسلط تھا ۔ اس سال سندھ کے حکمرانوں اور خان قلات میں جنگ ہوئی، جس میں یہ علاقہ سندھ کے تالپور حکمرانوں کے قبضے میں چلا گیا ۔ تالپور دور حکومت میں یہ علاقہ تجارتی بندرگاہ کی حیثیت سے ابھر ا،اٹھارہویں صدی کے آخر میں کراچی انگریزوں کی نگاہ میں آگیا ۔ انگریزوں کو اس علاقے میں ایک محفوظ بندرگاہ کی ضرورت تھی۔ کراچی ہرلحاظ سے ان کی ضروریات پر پورا اترتا تھا، اس لئے انہوں نے اس علاقے کو فتح کرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں ۔ انہیں کامیابی 1839 ء میں ملی ۔

تین فروری 1839ء کراچی کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ اس دن برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے کراچی پر قبضہ کرلیا ۔ یہی دن کراچی کے عروج کا آغاز بھی تھا ۔ نوآبادیاتی دور کے ابتدائی برسوں میں کولاچی جو گوٹھ کا نام تبدیل ہوکر خراچی ہوگیا تھا ۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر پر برطانوی راج شروع ہوا اور برطانیہ نے اس ابھرتے ہوئے شہر کو کراچی کا نام دیا ۔

1839ء میں برطانوی تسلط میں آنے کے تین سال بعد کراچی کو ضلع کا درجہ ملا ۔ کراچی کے قبضے کے بعد انگریزوں نے اسے فوجی چھاؤنی کے طور پر ترقی دینا شروع کی اور اکیسویں نیٹیو انفینٹری کو یہاں تعینات کیا ۔ اس دور میں کراچی کو سفیدفام شہر کی طرز پر بسایا گیا، جس میں مقامی شہریوں کو آزادنہ گھومنے پھرنے کی آزادی نہ تھی ۔ ضروریات کے پیش نظر شہر میں صنعتی اور رہائشی علاقے الگ الگ بسائے گئے۔

برطانوی دور میں کراچی دو حصوں میں منقسم تھا ایک حصہ صرف انگریز یعنی سفید فام استعمال کرتے تھے، جبکہ دوسرا ہندوستانی یا مقامی شہریوں کے استعمال میں تھا ۔ شہر کا بلیک ٹاؤن یا ہندوستانیوں کے زیراستعمال علاقہ کراچی کا شمال مغربی حصہ تھا، اس میں پرانا شہر ، نیپئر مارکیٹ ، اور بندرگاہ کے اطراف کے علاقے شامل تھے۔ شہر کا وائٹ ٹاؤن جنوب مشرق میں تھا ۔ اس میں اسٹاف لائن، فرئیرہال، سول لائن ، سندھ کلب ، گورنرہاؤس وغیرہ شامل تھے ۔ صدربازار اور ایمپریس مارکیٹ وائٹ ٹاؤن کی ضروریات پوری کرتی تھی، جبکہ سرائے کواٹرز بلیک ٹاؤن کے لئے مخصوص تھا

کراچی نے برطانوی راج میں ترقی کی کئی منازل طے کیں ۔ ان میں سے چند یہ ہیں :1864ء کراچی سے پہلا ٹیلی گرافک پیغام لندن بھیجا گیا۔

1858ء میں کراچی سے کوٹری تک 169 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کی تنصیب کا کام شروع ہوا اور 13 مئی 1861 ء کو کراچی اور کوٹری کے درمیان پہلی مسافر ٹرین چلی ۔ یہ موجودہ پاکستان میں چلنے والے پہلی مسافرٹرین تھی۔ 16 جون 1889ء کو کراچی شہر کو کیماڑی کی بندرگاہ سے بذریعہ ریلوے ملادیا گیا، جبکہ 1897 ء میں کیماڑی اور کوٹری کے درمیان ریلوے لائن کو ڈبل کردیا گیا ۔ 1878ء کو کراچی کو ریلوے کے ذریعے ہندوستان کے باقی علاقوں سے ملایا گیا ۔

10 اپریل 1885ء کراچی میں ٹرام سروس شروع کی گئی۔ ابتداء اس میں بھاپ کا انجن لگایا تھا لیکن شور کی وجہ انجن ہٹاکر گھوڑے سے لگادیئے گئے ۔ جبکہ آخری دنوں میں اسے ڈیزل انجن کے ذریعے چلایا گیا ۔ یہ ٹرام سروس 30 اپریل 1975ء کو بند کردی گئی۔

تازہ ترین