• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’سرکلر ریلوے‘‘ عوام کی آنکھوں میں بسا ایک خواب

کراچی میں گزرتے ہوئے ہر گھنٹے کے ساتھ سڑک پر آٹھ نئی گاڑیوں کا اضافہ ہورہا ہے اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ٹریفک مسائل میں اضافے کی رفتار کیا ہےکراچی کی بیشتر سڑکیں چاہے وہ شاہراہ فیصل ہو یا ایم اے جناح روڈ، آئی آئی چندریگر روڈ ہو یا پھر شاہراہ لیاقت، ٹریفک پولیس کے نامکمل انتظامات، سگنل سسٹم اور گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کے باعث مختصر فاصلہ طے کرنے میں بھی طویل وقت لگ جاتا ہے۔ماضی میں اس شہر میں بہت سی سرکاری بسیں (کے ٹی سی) کے تحت چلتی تھیں جن میں طلباء کو بھی رعایتی کرائے پر سفری سہولت حاصل تھی، لیکن رفتہ رفتہ یہ بسیں بند کر دی گئیں۔ ان بسوں کے ٹرمینلز، جنہیں ڈپو کہا جاتا تھا، شہر کے کئی مقامات پرآج بھی موجود ہیں۔

ماضی میں بہترین سفری سہولت میسر تھی۔ ان ہی میں کراچی سرکلر ریلوے بھی تھا۔کراچی سرکلر ریلوے کی ابتداء 1962میں اس وقت ہوئی جب پاکستان ریلوے نے سٹی اسٹیشن سے ڈرگ روڈ اسٹیشن تک میٹروٹرین کی کامیاب تجرباتی سروس شروع کی۔ 1969 میں منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے شہر کے اطراف 140 کلو میٹر کا ٹریک بچھا کر 23 نئے اسٹیشن بنائے گئے، 1970 تک مجموعی طور پر یومیہ 140 ٹرینیں لاکھوں شہریوں کو مرکز شہر تک لاتی اور لے جاتی تھیں۔ عوام میں بے پناہ پذیرائی اور ریلوے نظام کو کافی فائدہ ہونے کی بنا پر 1970 سے 1980 کے درمیان کراچی سرکلر ریلوے کے تحت روزانہ کی بنیاد پر 104 ٹرینیں چلائی جانے لگیں، جن میں سے 24 ٹرینیں لوکل لوپ ٹریک اور 80 مین ٹریک پر چلائی گئیں۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ اسٹیشن سے شروع ہو کر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی۔ جب کہ پاکستان ریلوے کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی سٹی اسٹیشن سے لانڈھی اور کراچی سٹی اسٹیشن سے ملیر چھاؤنی تک ٹرینیں چلا کرتی تھیں، جن سے ہزاروں لوگ روز مستفید ہوتے تھے۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ اسٹیشن سے شروع ہوکر لیاقت آباد سے گزر کر سٹی اسٹیشن کراچی پر ختم ہوتی تھی، جبکہ مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی سٹی اسٹیشن سے لانڈھی اور کراچی سٹی اسٹیشن سے ملیر چھاونی تک ٹرینیں چلاکرتی تھیں۔جن لوگوں نے کراچی سرکلر ریلوے سے سفر کیا ہے وہ اس پر لطف سفر سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس سرکلر ریلوے میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سفر کرتے تھے۔ یہاں تک بھی دیکھا جاتا تھا کہ لوگ اپنی کاریں ریلوے اسٹیشن پر پارک کر کے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے اس سرکلر ریلوے کے سفر کو ترجیح دیتے تھے۔ طالب علم، ملازمت پیشہ افراد، تاجر اور کارباری حضرات نہ صرف روزانہ ٹکٹ لے کر سفر کرتے تھے بلکہ ماہانہ پاس بھی بنوائے جاتے تھےاور ٹکٹ بوگی میں ہی فراہم کرنے کی سہولت بھی موجود تھی۔صبح کے اوقات میں ان بوگیوں میں وہ منظر دکھائی دیتے تھے کہ جیسے کہ کوئی پوری سوسائٹی ریلوے لائین پر دوڑ رہی ہو۔ 

 شہرکراچی سے ملک کے مختلف شہروں کا بذریعہ ریل گاڑی سفرکرنے والے جب سفر شروع کرتے تو سٹی اسٹیشن، کینٹ اسٹیشن، ڈرگ روڈ، لانڈھی، بن قاسم اور دیگر اسٹیشنوں سے گزرتے وقت شہرکی عمارتیں، سڑکیں، کچھ بازار اور دیگر نظارے بھی اُن کے ہمسفر ہوتے ۔ ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ سڑک پر چلنے و الی گاڑیاں، گھروں اور رہائشی علاقوں میں ریل کا نظارہ کرتے لوگ، پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے جمع افراد اور دیگر مناظر بہت اچھے لگتے ۔ پھر وہی ہوا جو ٹرام کے ساتھ ہوا تھا، سازش کے تحت اس نظام کو ناکام بنانے کے لیے پہلے ریل گاڑیوں کو لیٹ کرنا شروع کیا گیا، اور بعدازاں بس مالکان نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اندھی کمائی میں اضافہ کیا۔ 1980ء کی کامیاب سواری 1990ء میں مسافروں کی عدم دلچسپی اور بس مالکان کی سازشوں کے باعث تباہ ہونا شروع ہوگئی۔1990 کی دہائی میں کراچی سرکلر ریلوے کی آمدنی میں واضع کمی آنا شروع ہوئی اور یوں 1994 تک کراچی سرکلر ریلوے بدترین مالی بحران کا شکار ہوا اورٹرینیں بند کر دی گئیں۔ 1999 میں کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بند کر کے شہریوں کو نجی ٹرانسپورٹرز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔لیکن بدقسمتی سے 1992 کی دہائی میں کئی ٹرینیں ریلوے کو خسارہ ہونے کی بنیاد بنا کر بند کر دی گئیں۔ اس وقت یہ خبریں بھی اخبارات کی زینت بنیں کہ نجی ٹرانسپورٹ مافیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس نظام کو بتدریج زوال کی طرف لے جایا گیا۔ بالآخر 1999 میں عوامی بھلائی کے اس منصوبے کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔

یہ ٹرام اور کراچی سرکلر ریلوے کا شاندار ماضی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ذرائع نقل و حمل کسی بھی ملک کی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں ذرائع نقل و حمل میں ریلوے نظام کو بہت اہمیت حاصل ہے، اس حوالے سے گذشتہ دہائی کے دوران تیز رفتار ترقی کرنے والے ممالک کا مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ممالک نے ریلوے نظام اور خاص طور پر سرکلر ریلوے پر بہت زیادہ توجہ دی، جن میں چین،بھارت، تھائی لینڈ،ملائیشیاء، انڈونیشیاء، امریکہ، جرمنی، جاپان اور سنگاپور شامل ہیں، ان تمام ممالک نے سرکلر ریلوے پر بھر پور توجہ دی، جس کی وجہ سے ان ممالک کی ترقی میں اس نقل و حمل کے ذرائع نے بہت کلیدی کردار اد کیا، جبکہ پاکستان میں بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔کراچی سرکلر ریلوے 23 اسٹیشنز پر مشتمل تھی جو سٹی اسٹیشن سے شروع ہو کر کینٹ، نیول، چنیسر ہالٹ، شہید ملت، کارساز، ڈرگ روڈ، ہل ویو، گلستان جوہر سے ہوتے ہوئے، الہ دین پارک، نیپا، گیلانی، یاسین آباد، لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد، اورنگی، حبیب بینک، منگھو پیر، سائٹ، شاہ عبدالطیف، بلدیہ، لیاری، وزیر مینشن، ٹاور اور پھر سٹی اسٹیشن تک جاتاتھا۔

50 کلومیٹر کے اس سفر میں ریلوے کی تقریباً 67 ایکٹر زمین پر قبضہ کرلیا گیا ہے، کئی دہائی قبل کا انفرااسٹرکچر موجود ہے، جسے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، ریلوے کی زمین پر پلاٹنگ کے علاوہ کہیں چھوٹے موٹے چائے کے ڈھابے قائم ہیں تو کہیں پٹریاں دبا کر زمین کو پارکنگ اسٹینڈ بنادیا گیا ہے۔

ہر آنے والی حکومت نے اس شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس منصوبے کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے کئی بار فزیبیلٹی رپورٹ تیار کی ،مگر اس کی منظوری ہونے کے باوجود اس منصوبے کو شروع نہ کیا جا سکا۔ لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال، ناظم آباداور گلستان جوہر سے گزرنے والے ٹریک پر تجاوزات قائم کرادی گئیں،جن میں فرنیچر، غیر قانونی دکانیں، گودام مختلف کارخانے، مویشی منڈیاں، رکشہ اسٹینڈ، گاڑیوں کے ورکشاپ، کباڑ بازار اور رہائشی کالونیاں شامل ہیں۔ گلشن اقبال 13 ڈی، بھنگوریا گوٹھ اور پاپوش میں تو ریلوے ٹریک لاپتہ ہی ہو گیا ہے اور کئی کلومیٹر علاقے پر اب کاروباری مراکز قائم ہو چکے ہیں۔ بعض ریلوے ٹریکس پر سگنلز آج بھی آویزاں ہیں،جبکہ نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد اور گلشن اقبال ریلوے ٹریکس پر سے پھاٹک غائب ہوچکے ہیں، مختلف علاقوں میں ٹریکس ختم کرکے کچی سڑکیں بنائی جاچکی ہیں جبکہ ریلوے ٹریک کو کچرا کنڈیوں کے طور پر بھی استعمال کیا جارہا ہے، بعض ٹریکس جرائم پیشہ اور منشیات کے عادی افراد کی آماجگاہیں بن چکے ہیں۔

کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا مشن، تجاوزات کے خاتمے کا آپریشن شروع کردیا گیا۔سپریم کورٹ نے کراچی میں سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کا حکم دیا ۔

19برسوں سے عوام کو کراچی سرکلر ریلوے کا خواب دکھایا جارہا ہے، کبھی منصوبے کی فزیبلٹی اسٹڈی کرکے، تو کبھی مختلف فورمز پر اس کی منظوری لے کرلیکن نتیجہ آج بھی وہی ہے یعنی ڈھاک کے تین پات۔

اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں دو اہم چیزیں رکاوٹ بن رہی ہیں۔تجاوزات اور قبضہ مافیا۔

2013 ءمیں سابق وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے 2.6 ملین امریکی ڈالر کے منصوبے کی منظوری دی تھی ،جس میں کئی نئے اسٹیشن اور ان اسٹیشنوں کے مطابق کئی نئے بس روٹس چلانے کا اعلان بھی کیا گیالیکن ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر نہ جانے کن وجوہات کی بنا ءپر یہ منصوبہ کھٹائی کا شکار ہوگیا۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی خصوصی ہدایات پر سرکلر ریلوے کو سی پیک منصوبے کا حصہ بناتے ہوئے اسے تین برسوں میں تکمیل تک پہنچانے کا عندیہ دیا گیا ،اس منصوبے پر تقریباً 270 ارب روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ۔وزارت پلاننگ کے مطابق کراچی سرکلر ریلوے کیلئے 43 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک پچھایا جائے گا۔یہ منصوبہ حکومت سندھ اور چین کو مکمل کرنا تھا، جبکہ اس منصوبے کی نگرانی وزارت پلاننگ کی ذمہ داری تھی۔سرکلر ریلوے منصوبے کے تحت اوسطاََ ایک سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر کل 24 اسٹیشن بنائے جائیں گے۔سرکلر ریلوے منصوبے کے تحت اوسطا ایک سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر کل 24 اسٹیشن بنائے جانے کی بات کی گئی، تاہم یہ منصوبہ بھی التواءکا شکار ہوگیا۔ اب سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں حکم نامہ جاری کیا ہے ،تجاوزات کے خلاف کامیاب آپریشن کو دیکھتے ہوئے اس بات کی اُمید انتہائی روشن ہے کہ سپریم کورٹ کے اس حکم پر بھی عمل درآمد ہوگا اور کراچی کی عوام کوسرکلر ریلوے کی صورت میں سفری سہولیات میسر آسکیں گی۔

کراچی کی انتظامیہ نے ،جس ٹریک پر تجاوزات ختم کیے ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہاں پٹری کے نشانات بھی موجود نہیں رہے، سرکلر ریلوے کے اسٹیشنوں کی عمارتیں ٹوٹ چکی ہیں اور بیشتر مقامات پر اب پلیٹ فارم تک موجود نہیں ہیں۔ ریلوے کے عملے کو ریل کی پٹری کی دوبارہ تعمیر ومرمت کے ساتھ سگنلنگ کا نظام بھی دوبارہ نصب کرنا ہوگا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے سے اب تک کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو ریلوے کی انتظامیہ نہ سندھ میں برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں اور نہ وفاقی حکومتوں نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی پاسداری سے سرکلر ریلوے بحال ہو جائے گی تو اس سے اس صدی کا ایک بڑا معجزہ قرار دیا جاسکے گا۔ ایک جانب جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک اپنے شہریوں کو انڈرگراونڈ ریلوے اور فاسٹ ریلوے کا نظام دے رہے ہیں تو دوسری جانب کراچی کی دو کروڑ سے زائد کی آبادی پبلک ٹرانسپورٹ اور سرکلر ریلوے کا خواب ہی آنکھوں میں سجائے بیٹھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اُن کے یہ خواب کب پورے ہوتے ہیں۔

تازہ ترین