• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمرا ن خان اور اعلیٰ عسکری قیادت امریکہ کا کامیاب دورہ مکمل کرلینے کے بعد وطن واپسی کی راہ پر ہیں، میرےخیال میں وزیراعظم صاحب کاحالیہ دورہ ہر لحاظ سے تاریخی ہے، بالخصوص دوطرفہ سفارتی تاریخ کا یہ منفرد پہلو ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک ساتھ امریکہ جاکر یہ پیغام اجاگر کیا کہ وطن کی سلامتی و استحکام کیلئے ہم سب ایک ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات سے قبل اوورسیز پاکستانیوں کے عظیم الشان جلسے کا انعقاد بلاشبہ ایک شاندارحکمت عملی تھی جو اس سے قبل کوئی پاکستانی حکمراںاپنانے کا حوصلہ نہ کرسکا، اس جلسے نے جہاں یہ تاثر مضبوط کیا کہ وطن سے دور بسنے والے پاکستانیوں کے دل بھی اپنے پیارے وطن کیلئے دھڑکتے ہیں ،دوسری طرف ٹرمپ انتظامیہ کو بھی امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے ٹھاٹھے مارتے سمندرسے عمران خان حکومت کی مقبولیت کا بخوبی اندازہ ہوگیا،عالمی امور پر گہری نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ امریکہ ہمیشہ دوطرفہ تعلقات کی بنیاد زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر بناتا ہے، تیسری دنیا کے بہت سے ممالک کے حکمرانوں نے امریکہ سے ذاتی تعلقات کو اپنے اقتدار کی ضمانت سمجھنے کی غلطی کی لیکن جونہی اندرونی طور پر وہ حکمراں عوامی مقبولیت سے محروم ہوا، امریکہ نےاس کی مدد نہیںکی۔ گزشتہ سالِ نو کا آغاز پاکستان مخالف ٹویٹ سے کرنے والے ٹرمپ کے رویے میں یہ انقلابی تبدیلی یقیناََ عوامی حمایت سے برسراقتدار آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی وجہ سے آئی ہے، صدر ٹرمپ کی ایک وجہ شہرت غیر روایتی سیاستدان کی بھی ہے جو لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے دل کا حال بیان کرتے ہیں، اس حوالے سے ان کا میڈیا کے سامنے یہ اعلان کرنا کہ پاکستان عظیم لوگوں کا عظیم ملک ہے اور عمران خان مقبول ترین وزیر اعظم ہیں، پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات میں ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اسی طرح عمران خان بھی سچی اور کھری بات کہنے کے عادی ہیں ، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے عالمی برادری بالخصوص امریکہ کا تعاون نہایت اہمیت کا حامل ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے دورہ امریکہ میں واضح کردیا ہے کہ پاکستان امداد کا نہیں بلکہ تعاون کا طلبگار ہے۔ تاریخی طور پر پاک امریکہ تعلقات اتار چڑھاؤکا ضرورشکار رہےہیں۔ قیام پاکستان کے موقع پر قائداعظم نے امریکی صدر ٹرومین کے نام اپنے جوابی مراسلے میں امریکہ اورعالمی برادری سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے عزم کا اعادہ کیاتھا، امریکہ پاکستان کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل ہے اورحکومت امریکہ نے قیام پاکستان کے فوراََ بعد آزادی کی تقریبات میں شرکت کیلئے بڑا وفد بھیجاتھا۔پہلے پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان کے امریکہ کے دورے کے فیصلے نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی راہ متعین کردی، امریکہ سے قریبی تعلقات رکھنے کی پاکستان کی تمام حکومتوں کی کوشش رہی ہے،پاکستان نے بے انتہا قربانیاں بھی دی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا جس سے پاکستان کا طول و عرض خودکش حملوں سے لہولہان ہوگیا، دہشت گردی کے عفریت کو شکست دینے کیلئے ستر ہزار سے زائد جانوں کی قربانی پیش کی، وغیرہ وغیرہ۔ افسوس، ان سب حقائق کے باوجود پاکستان کی نیت پر شک کیا گیا، میری نظر میں کچھ قصوروارماضی کی حکومتوں کا رویہ بھی ہے جنہوں نے اپنے ذاتی مفادکو ملکی مفادات پر مقدم رکھااور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر پاکستان کا مثبت امیج پیش کرنے سے غفلت برتی۔ آج امریکہ افغانستان میں اٹھارہ سالہ طویل جنگ کے بعد اتنے زیادہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوگیا ہے کہ ٹرمپ افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کررہاہے، طاقت کے زعم میں مبتلا امریکی قیادت یہ بھول جاتی ہے کہ افغانستان پر ہزاروں سالوں سے کوئی جارح بیرونی قوت غاصبانہ تسلط برقرار نہیں رکھ سکی ہے۔ پاکستان کی افغان عوام کے ساتھ طویل وابستگی ہے، آج دنیا تسلیم کررہی ہے کہ پاکستان کے بغیر افغان امن عمل ممکن نہیں، ماضی میں پاکستان کو افغان طالبان کی حمایت پرالزامات کا سامنا تھا لیکن اب وزیراعظم عمران خان نے امریکہ سے واپسی پر طالبان سے باضابطہ ملاقات کا اعلان کردیا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں علاقائی سلامتی اور عالمی امن کی خاطر افغانستان میں امن کیلئے امریکہ کی عملی حمایت ضرور کرنی چاہئے لیکن امریکی فوج کے اچانک انخلاء سے نوے کی دہائی کی تاریخ نہیں دہرائی جانی چاہئے بلکہ تمام افغان دھڑوں اور طالبان پر مشتمل وسیع البنیاد حکومت قائم ہونی چاہئے، اس سلسلے میں طالبان کی جانب سے نئے ملکی آئین کا مطالبہ ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ماضی میں امریکی حکمرانوں سمیت دیگر عالمی لیڈر کشمیر پر لب کشائی سے بھی گریز کرتے تھے ، مجھے نہیں یاد کہ ماضی قریب میں کسی امریکی حکمراں نے کشمیر کا نام بھی لیا ہو، اس لئے صدر ٹرمپ کا عمران خان کی موجودگی میں کشمیر پرثالثی کیلئے حامی بھرنا پاکستان کی بہت بڑی سفارتی فتح ہے، مجھے یقین ہے کہ صدر ٹرمپ نےجیسے ایک دوسرے کے بدترین دشمن جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کو قریب لانے میں بھرپور کردار ادا کیا ،وہ مسئلہ کشمیر کے دیرپا حل کیلئے بھارت اور پاکستان پر بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کرسکتے ہیں ۔صدر ٹرمپ کے اس عزم نے پاکستان مخالف لابیوں میں کھلبلی مچادی ہے تو ہمیں بھی اپنے تھنک ٹینک فعال کرنے ہونگے،اسی طرح پاکستان بھی امریکہ ایران تصادم روکنے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی بہترین پوزیشن میں ہے۔ پاکستان اور امریکہ کی اعلیٰ قیادتوں کو سمجھنا چاہئے کہ ایسے بہترین موقع قدرت باربار نہیں دیتی، آج اگر دونوں ممالک کابل اور کشمیر میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو انسانی تاریخ میں حالیہ دورہ امریکہ یقیناَ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ صدر ٹرمپ کے ممکنہ دورہ پاکستان کیلئے ہم تمام پاکستانیوں کو اپنے اختلافات بھلا کر ان کے فقید المثال استقبال کیلئے تیاریاں شروع کرنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین