• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکرفردا … راجہ اکبردادخان
کسی بھی شعبہ میں آگے بڑھنے کیلئے اہم ترین ایلیمنٹ یہ ہے کہ کوئی اس شعبہ سے کتنا جڑا ہوا ہے۔ بورس جانسن کی ٹین ایج اپنی فیملی کے ساتھ دنیا کے کئی اہم مراکز میں گزری، جہاں ان کے والد سٹینلے جانسن مختلف حیثیتوں میں ریاست برطانیہ کیلئے کام کرتے رہے، بورس کے تمام ہم عمر خواہ کسی شعبہ زندگی سے منسلک ہیں کہتے ہیں کہ وہ اپنی کم عمری میں ہی وزیراعظم بننے کے لئے پرعزم تھے، اگرچہ انہوں نے یہاں پہنچنے کیلئے غیر روایتی راستہ (بذریعہ میڈیا) اختیار کیا، ان کے والد جو ایم ای پی بھی رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں کہ ان کا بیٹا بورس اس بہت بڑی تجارتی منڈی سے باہر آجانے کے قافلہ کا قائد ہے، وزیراعظم کی اعلیٰ سطح کی سیاست میں غیر روایتی انٹری ثابت کرتی ہے کہ وہ مختلف سوچوں کے وزیراعظم ہونگے، بورس جانسن ایک طویل عرصہ سے برطانیہ کے کئی اہم اخبارات مثلا,Sunday Times , The Timesاور Spectatorسے بحیثیت کالم نگار جڑے رہے ہیں، وہ خود اور ان کے بھائی بہن مشہور سکول ایٹن اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے، ان کی پارلیمانی سیاسی زندگی زیادہ طویل نہیں ہے مگر پچھلے بیس سال کے دوران وہ اپنی میڈیا پروفائل کی وجہ سے جماعت کیلئے بادشاہ گر بھی رہے اور سیاست کے مرکز میں بھی ان کے ایک سابق نیوز پیپرایڈیٹر Hrry Mountکے مطابق بورس وقت گزرنے کے ساتھ ایک سیاسی گیمبلر اور باغیانیہ روش کے فرد بن گئے ہیں جس کی ایک مثال 2016میں لیڈر شپ ریس میں ان کی ناکامی تھی، The Sunday Timesکے ایک حالیہ مضمون میں Harry Mountلکھتے ہیں کہ کئی باربورس نے ذکر کیا کہ کیا ہی اچھا ہوکہ وہ وزیراعظم بن جائیں، مگر گزشتہ ریفرنڈم کمپین کے دوران لوگوں کا جوش وجذبہ دیکھنے کے بعد انہیں اپنی کامیابی کے آثار ابھرتے دکھائی دیئے، وجہ ؟ کیمرون بھی چاہ رہے تھے کہ بورس کوئی حتمی فیصلہ کریں، انہوں نے بھی بورس مینیاکی جھلکیاں دیکھیں۔ میڈیا ان میں دلچسپی بھی لے رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے ہچکچاتے نظر آئے، ریفرنڈم پر خوب مباحثہ ہورہا تھا تو ہیری مونٹ کے مطابق انہوں نے بورس سے ریفرنڈم پہ ایک آرٹیکل لکھنے کا کہا اور تاکید کی کہ یہ آرٹیکل بروقت اخبار The Telesraphکو مل جانا چاہئے۔ ہیری کیلئے تعجب تھا کہ بورس بروقت آگئے اور ایک کی بجائے دو آرٹیکلز لے آئے اور کہا ایک یورپ سے باہر نہ آنے کے حق میں ہے اور دوسرا یورپ سے باہر آجانے کے حق میں ہے، آپ کو کون سا چاہیے؟ میں نے جواب دیا جو آپ کو زیادہ پسند ہے اس پر وہ ارٹیکل جس میں باہر آجانے کے حق میں دلائل تھے، میرے حوالے کرکے چلے گئے اس وقت تک بھی انہوں نے Noکمپین میں شریک ہونے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ ان کے اس مضمون نے ملکی اور ٹوری پارٹی سطح پہ ایک تہلکہ مچادیا، کئی معتبر مبصرین کےلئے یہ ایک انہوںا فیصلہ تھا، ان کے کئی ناقدین نے اس فیصلہ کو ایک اور ایسا فیصلہ قرار دیا، جو غیر متوقع تھا اور کہا گیا کہ بورس قومی اہمیت کے فیصلے کرنے کی اہلیت نہیں  رکھتے، دوسری طرفNoکمپین والوں کیلئے بورس کی اس کے ساتھ ہمدردانہ روش کو کئی اخبارات میں بھرپور انداز میں ویلکم کیا گیا اور پوری کمپین کو بھاری اپ لفٹ ملی، ڈیوڈ کیمرون مایوس ہوئے کہ بورس Noکمپین میں چلے گئے ہیں، ایک طویل ریفرنڈم کمپین کے بعد لوگوں نے ای یو سے باہر آجانے کے حق میں فیصلہ دے دیا، ہیری مونٹ جو بورس کو قریب سے جانتے ہیں، انہیں اعلیٰ درجہ کا Intelecutal مانتے ہیں اور کہتے ہیں اخبارات نے ان کے اس ٹیلنٹ کو مزید ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی گفتگو اور معاملات سمجھنے کا معیار بہت اونچا ہے، ہیری مونٹ مزید کہتے ہیں بورس سمجھ چکےتھے کہ ٹوری پارٹی کا بڑا حصہ اینٹی یورپ ہوچکا ہے لیکن یورپ حامیوں کی تعداد بھی کم نہیں، ایسے ماحول میں آئندہ کسی الیکشن میں وہی وزیراعظم کیلئے مضبوط ترین امیدوار ہونگے، اب وہ وزیراعظم بن چکے ہیں بورس Noکمپین کے متعلق اپنے فیصلہ کو سوچا سمجھا سمجھتے ہیں مختصر عرصہ کیلئے وزارت خارجہ اور دو دفعہ لندن میئر کے اعزازات ہی انکا سیاسی سرمایہ ہیں، اپنے اس الیکشن میں انہیں سابق وزیراعظم مسزتھریسامے کے دو پسندیدہ ایم پیز (مائیکل گوو اور جیرمی ہنٹ جو دونوں منسٹر تھے) سے مقابلہ تھا، بورس الیکشن کے تمام مراحل میں بھاری اکثریت جیتے، کیا یہاں بھی لوگوں نے تبدیلی کو فالو کیا ہے؟ ٹوری پریس بھی بورس کے بارے میں متواتر تنقیدی رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ ان کی حکومتی سیاست میں کم موجودگی کئی بار انکے اہم فیصلے سوچے سمجھے بغیر کردینے کی عادات، پارلیمنٹ کے اندر کم میجارٹی کے باوجود یہ موقف کہ وہ 31 اکتوبر کو ہر حال میں ای یو سے باہر آجائیں گے اور بورس کی ایسی سوچیں کہ وہ اپنی ایگزیکٹو طاقت استعمال کرتے ہوئے ای یو سے باہر آجانے کا راستہ بناسکتے ہیں ایسے موقف ہیں جنہیں پارلیمنٹ سے مدد نہیں مل سکے، آئینی ماہرین کی بھاری تعداد میڈیامیں وزیراعظم کیلئے مشکلات کا عندیہ ہیں، 14جون کو ٹائمز میں ایک طویل مضمون یہ کہتا ہے کہ جانسن کو 10 ڈائوننگ میں خیال رکھنے والوں کی ایک ٹیم کی ضرورت ہوگی، The Timesکی ایک معتبر کالم نگار ریچل سلویسٹر کے مطابق پرانی اور پیلے رنگ والی ٹوری پارٹی آگے نہیں بڑھ رہی، 6 جولائی کے ایڈیٹوریل میں The Timesکہتا ہے کہ ٹوریز کو اس امیدوار کو کامیاب کرنا چاہئے جو بریگزٹ ڈیلور کرسکے اور جیرمی کوربن کوہراسکے، وہ بھی ایک دھیمے انداز میں ہی بورس کی حمایت کررہے تھے، ٹوری لارڈز کی ایک بڑی تعداد بھی جانسن حامی نہیں، بورس کی ہوا میں اڑتی مقبولیت اپنی جگہ لیکن اس انتخاب میں تمام برطانوی اخبارات نے تمام امیدواران کی کمزوریوں اور پلس پوائنٹس کو خوب نوٹ کیا ہے اور انہیں لوگوں کے سامنے رکھ کر اپنا قومی فریضہ کہ ملک سب سے اہم ہے احسن طریقہ سے انجام دیا ہے، ہمارے اخبار نے بھی اپنے بہن بھائیوں کو آگاہ رکھنے کیلئے خوب کالمز اور خبریں شائع کی ہیں ہر کسی کی اپنی سیاست جماعت اپنی جگہ، اب جبکہ بورس وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں، موقع بھی ہے دستور بھی ہے اور رسم دنیا بھی کہ ہم ان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کریں، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کرے وہ ایک اچھے پی ایم ثابت ہوں۔
تازہ ترین