• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم کا حالیہ دورہ امریکہ کا میاب رہا یا نہیں ؟ اس سوال پر وسیع تر بحث جاری ہے ۔ لیکن اس سوال کا معروضی جواب تلاش کرنے سے قبل یہ طے کرنا ضروری ہو گا کہ وزیر اعظم عمران خان امریکا سے کیا حاصل کر سکتے تھے ، جس کی وجہ سے ان کے دورے کو کامیاب قرار دیا جا سکے ۔

دیگر ملکوں سے تعلقات کی نسبت پاک امریکا تعلقات کی نوعیت بالکل مختلف ہے کیونکہ پاکستان کی سیاست ، سیکورٹی معاملات ، معیشت اور دیگر امور میں امریکا کا عمل دخل بہت زیادہ ہے یا امریکا زیادہ اثر انداز ہو سکتا ہے ۔ ہمارے سیاست دان اور غیر سیاسی قوتیں بھی امریکا کی طرف دیکھتی ہیں ۔ اس لیے کسی بھی پاکستانی حکمران کا دورہ امریکا زیادہ دلچسپی کا موضوع بنا رہتا ہے ۔ پاکستان نے اپنے قیام کے بعد سے امریکی کیمپ میں شامل ہو کر فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر زیادہ تر امریکی مفادات اور امریکی ایجنڈے کے لیے کام کیا ہے ۔ کبھی کبھی پاکستان امریکی توقعات کے مطابق بوجوہ کام نہیں کر سکا ہے یا کبھی امریکی کیمپ سے نکلنے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔ اس مختصر پس منظر میں عمران خان کے دورہ امریکا کا جائزہ لینا چاہئے ۔ اس دورے سے قبل پاک امریکا تعلقات اپنی تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر تھے ۔ یہ تعلقات نہ صرف خراب بلکہ کشیدہ تھے ۔ حقیقت کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری کا خاتمہ ہوا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی وزیر اعظم کی میزبانی میں زبردست گرم جوشی کا مظاہرہ کیا حالانکہ صدر ٹرمپ اپنے پاکستان مخالف بیانیہ کی وجہ سے مشہور تھے ۔ ان کے یہ بیانات لوگ ابھی تک نہیں بھول پائے ، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکا نے پاکستان کو 33 ارب ڈالرز کی خطیر امداد دے کر غلط کام کیا۔ اس کے بدلے میں پاکستان نے صرف دھوکہ دیا ۔ پاکستانی امریکیوں کو احمق سمجھتے ہیں ۔ اسی صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کو وائٹ ہاؤس میں وہ پروٹوکول دیا اور مہمان نوازی کی ، جو کم غیر ملکی رہنماؤں کے لیے ہوتی ہے ۔ صدر ٹرمپ سمیت دیگر امریکی حکام نے افغانستان میں قیام امن او ردہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی کوششوں کو سراہا ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے دورے سے پاک امریکا تعلقات دوبار ہ بہتر ہوئے او دونوں ملکوں کی قیادت میں اعتماد کا رشتہ پیدا ہوا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کا ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اعلیٰ سطح پر ایک تعلق قائم ہو ا ہے ، جو مستقبل میں مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی پاکستان کو تنہائی سے نکالنے کی وزیر اعظم عمران خان کی کوششوں کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔

پا کستانی حکمران کے دورہ امریکا کے موقع پر یہ سوال بھی اہم ہوتاہے کہ امریکی قیادت سے کشمیر کے ایشو پر بات ہوئی یانہیں ۔ صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کے لیے اپنی ثالثی کی پیشکش کرکے مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کو اجاگر کیا ہے ۔ اگرچہ صدر ٹرمپ کی اس پیشکش سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن اس مسئلے پر اس طرح بات ہونا بھی سفارتی کامیابی ہے ۔ امریکی قیادت نے پاکستان کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیاہے ۔ امریکی صدر نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ پاکستان کو بند کی جانے والی امریکی امداد بحال بھی ہو سکتی ہے لیکن وزیر اعظم عمران خان نے ’ ’ ایڈ نہیں ٹریڈ ‘‘ کا اپنا موقف باوقار انداز میں پیش کیا ہے ۔ امریکا کے ساتھ تجارت میں پاکستان کے لیے کوئی زیادہ اچھے مواقع نہیں ہیں لیکن امریکی منڈیوں تک پاکستانیوں کی رسائی کے مستقبل میں فائدے ہوں گے ۔ امریکا کی نظر پاکستان کے توانائی کے وسائل پر ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان کی موجودہ اور آنے والی قیادت کو محتاط انداز میں آگے بڑھ کر اپنے مفادات حاصل کرنا ہوں گے ۔

امریکا میں مقیم پاکستانیوں نے کیپٹل ون ایرینا میں بہت بڑاجلسہ کرکے وزیر اعظم عمران خان کا جو استقبال کیا ، اس کے بھی پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورت حال پر اثرات مرتب ہوں گے ۔ امریکا میں اس بڑے اجتماع سے وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کو بھی دورہ امریکا کی کامیابیوں میں سے ایک کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے ۔

امریکا کے ’’ ڈومور ‘‘ کے مطالبے پر ملکی اور غیر ملکی مبصر اس بات پر متفق ہیں کہ امریکا کایہ مطالبہ وزیر اعظم عمران خان کےد ورے کےد وران بھی برقرار رہا ۔ صدر ٹرمپ نے عمران خان سے ون ٹو ون ملاقات میں بھی اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان آئندہ دنوں میں امریکا کے لیے بہت کچھ کرنے والا ہے ۔ پاک امریکا تعلقات کی بہتری کا بنیادی سبب یہ ہے کہ امریکا افغان مسئلے کے حل کے لیے پاکستان سے زیادہ کردار ادا کرنے کی توقع رکھتا ہے ۔ عمران خان ٹرمپ ملاقات کے بعد وہائٹ ہاؤس سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا، اس کے الفاظ بھی قابل غور ہیں ۔ اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ ’’ اسلام آباد نے دہشت گرد گروہوں کے خلاف کچھ اقدامات کیے ہیں ۔ یہ بہت اہم ہے کہ ایک ہی دفعہ سب دہشت گردوں کا خاتمہ کر دے ۔‘‘ یہ بنیادی طور پر ڈومور کاہی مطالبہ ہے لیکن مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ مطالبہ پہلے کی طرح دھمکی آمیز الفاظ کے ساتھ نہیں کیاگیا۔

امریکی حکام نے ہمارے خطے میں اپنے سیکورٹی مفادات کا ذکر ضرور کیالیکن کسی بھی فریق کی طر ف سے ان سیکورٹی مفادات کی تفصیل سامنے نہیں آئی اورنہ ہی یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے امریکی سیکورٹی مفادات کے تحفظ کے لیے کیاکمٹ منٹس کیں ۔ پاک امریکا تعلقات میں کوئی حالت مستقل نہیں ہوتی لیکن بظاہر وزیر اعظم عمران خان کا دورہ پاکستان کے لیے بھی کامیاب ہے اور موجودہ سیاسی صورت حال میں ان کی حکومت کے لیے بھی اچھا ثابت ہو سکتا ہے۔ جب ملک کے اندر اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں ان کے خلاف متحد ہو چکی ہیں۔

تازہ ترین