• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے غاصبانہ اقدام کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ مودی نےخِطّے کو تباہی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ بھارت میں مودی جی کا بھڑکا یا ہوا جنگی جنون ہے۔ایسے میں وہاں سے روزانہ طرح طرح کی دھمکیاں آتی ہیں اور ان کے ذرایع ابلاغ کے لطیفے سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ان کے بہت سے اور ہمارے چند ’’سُورما‘‘ چونچیں لڑاتے رہتے ہیں۔لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ دونوںطرف کے زیادہ تر افرادامن کے خواہاں ہیں۔دونوں طرف بہت بڑی تعداد میں لوگ جنگ کی ہول ناکی اور امن کے فواید پر بات کرتے نظر آتے ہیں ۔ لیکن دونوں طرف بعض افراد بدقسمتی سے ان معاملات کو قوم پرستی اور قومی مفاد کی یک طرفہ اور شدت پسندانہ توجیہہ میں غیر ضروری مباحث قرار دیتے ہیں ۔ حالاں کہ یہ معاملات پاکستان اور بھارت میں عوام کی فلاح و بہبود، صحت ،تعلیم اور روزگارپر قومی وسائل صرف کرنے کے بجائے دفاع اور اسلحے کی خریداری پر دولت ضایع کرنے اوربھارت کی جانب سے اپنے تئیں خطے اور دنیا میں بڑی قوت بننے کا خواب دیکھنے کے منفی مزاج اور رویّے سے متعلق ہیں۔

٭ آج کی دنیا نے یہ تاثر غلط ثابت کردیا ہے کہ صرف عسکری قوت ہی کام یابی کی کنجی ہے۔ یہ دور علم پر مبنی معیشت کا ہے۔چناں چہ آج بہت سے ممالک کسی بڑی فوج کے بغیر بھی خوش حال اور محفوظ ہیں ٭اس وقت دونوں ملکوں میں آبادی کا بہت بڑا حصہ خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور عوام کی دیکھ بھال کے لیے حکومتوں کے پاس وسائل محدود ہیں ٭ بہ ہر صورت ہمیں بہ حیثیت قوم یہ طے کرناہے کہ ہم جنگ کا راستہ اختیار کرکے پس ماندہ، بدنام اور بدحال رہنا چاہتے ہیں یا اسلحہ جمع کرنے کا جنون ختم کرکے ترقی،تعمیر اور علم کا سفر شروع کرنے میں ہی اس خطے میں آباد لوگوں کا فائدہ ہے 

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

بھارت والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ جنگ کے بجائے آج دونوں ملکوں میں یہ بحث شروع کرنے کی ضرورت ہے کہ دو دہائیوں میں عالمی سطح پر سیاسی، سماجی اوراقتصادی صورت حال میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان کی روشنی میں کیا پاکستان اور بھارت جیسے ممالک اسلحے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جد و جہد میں حقیقی معنوں میں کام یابی اور ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکتے ہیں؟اس وقت دونوں ملکوں میں آبادی کا بہت بڑا حصہ خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور عوام کی دیکھ بھال کے لیے حکومتوں کے پاس وسائل محدود ہیں ۔ پھر ان محدود وسائل کا بہت بڑا حصہ ایک ممکنہ جنگ میں کام یابی حاصل کرنے پر صرف کردیا جاتاہے ۔ باقی ماندہ وسائل کو ان ممالک کا برسر اقتدار طبقہ بدعنوانی ، بد انتظامی اور غلط ترجیحات پر صرف کرکے ان ملکوں کو مسلسل زوال پذیر رکھنے میں کردار ادا کررہا ہے۔ان حالات میں یہ غور کرنے اورطے کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کا فائدہ بارود حاصل کرنے، جنگ کا ماحول پیدا کرنے اور ایٹمی طاقت یا دیگر عسکری شعبوںمیں اضافہ کرنے میں ہے یا اپنے لوگوں کو بااعتماد، صحت مند اور تعلیم یافتہ بنا کر ترقی اور وقار کا سفر آسانی سے مکمل کیا جا سکتا ہے؟

حاصلِ زندگی خِرد بھی ہے

آج کی دنیا نے یہ تاثر غلط ثابت کردیا ہے کہ صرف عسکری قوت ہی کام یابی کی کنجی ہے۔ یہ دور علم پر مبنی معیشت کا ہے۔چناں چہ آج بہت سے ملک کسی بڑی فوج کے بغیر بھی خوش حال اور محفوظ ہیں۔ اس حوالے سے بھارت، کشمیر اور دیگر علاقائی مسائل کو موضوع بنا کر ان کا حل تلاش کرنے کے لیے بحث شروع کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ بہ ہر صورت ہمیں بہ حیثیت قوم طے کرنا ہے کہ ہم جنگ کا راستہ اختیار کرکے پس ماندہ، بدنام اور بد حال رہنا چاہتے ہیں یا اسلحہ جمع کرنے کا جنون ختم کرکے ترقی ،تعمیر اور علم کا سفر شروع کرنے میں ہی اس خطے میں آباد لوگوں کا فائدہ ہے ۔ دونوں ملکوں کے حالات کو مد نظر رکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ دونوں طرف کوئی سیاسی راہ نمایہ بحث شروع کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکتا،تو یہ بے جا نہ ہوگا۔چناں چہ دونوں طرف کے عوام کو خود اس معاملے پر غور کرکے منزل کا درست تعین کرنے کی ضرورت ہے۔

امن جمہور کی خوشی کے لیے

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی جانب سے گزشتہ برس جون کے مہینے میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں77فی صد نوجوان روزگار کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ ملک کے 36فی صد نوجوان اپنے مستقبل سے ناامید ہیں،16فی صد کا خیال ہے کہ مستقبل میں کچھ تبدیل نہیں ہوگا اور 15فی صد کا خیال ہے کہ معاملات آگے چل کر مزید خراب ہو جائیں گے ۔ نیشنل ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ (این ایچ ڈی آر)کے مطابق ملک میں نوجوانوں کی تعداد تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ آبادی کا 64فی صد30سال سے کم عمرکے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔29فی صد آبادی کی عمر 15 سے 29سال کے درمیان ہے۔این ایچ ڈی آر کے مطابق 15سے 29سال کی آبادی ملک کی مجموعی لیبر فورس کا 41.6فی صدہے۔اس کے ساتھ 40 لاکھ نوجوان ہر سال جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔اس لیے پاکستان کو ہر سال دس لاکھ نئی اسامیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 39فی صد نوجوانوں کو روزگار کے مواقعے حاصل ہیں ۔ دو، دوفی صد مرد اور خواتین کو روزگار کی تلاش ہے، مگر حیرت انگیز طور پر57فی صد بے روزگاروں کو نوکری کی تلاش ہی نہیں ہے۔ ہمارے77فی صد نوجوان روزگار کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ہمارے اسکولز میں داخلے کی شرح ایک فی صد بھی نہیں بڑھ رہی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اگر حالات اسی طرح رہے تو ملک بھر کے بچوں کواسکولز میں داخل کرانے میں60سال لگ جائیں گے۔2030تک تمام بچوں کو اسکول بھیجنے کا ہدف حاصل کرنے کےلیے انرولمنٹ کی شرح تین اعشاریہ آٹھ فی صد سالانہ کے حساب سے بڑھانی ہو گی ۔این ایچ ڈی آر کے مطابق ایک سے پانچ سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم کے صرف 16فی صد مواقعے موجود ہیں۔چھ سے دس سال کی عمر تک شرح تعلیم 40 فی صد ہے۔ گیارہ سے بارہ سال کے درمیان صرف نوفی صد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ملک بھر میں 29 فی صد افراد کو تعلیم کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔

جنگ سرمائے کے تسلّط سے

معاملات کا گہرائی میں جاکر جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بھارت اورپاکستان میں بنیادی نوعیت کامسئلہ ایک جیسا ہی ہے اور وہ ہے انسانی ترقی کا بحران ہے۔ کیوں کہ معاشرے میں ہمیں انسانوں کے تناظر میں سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ترقیاتی تضاد اور تقسیم واضح نظر آتی ہے۔ انسانی ترقی کا ایک بحران ہمیں صنفی بنیادوں پر، یعنی عورتوں اورکم زور طبقات تک بھی گہرا نظر آتا ہے۔ اگر ہم دونوں طرف کےسرکاری اعداد و شمارکا جائزہ لیں تو ان میں سب سے زیادہ محرومی اور تقسیم سماجی شعبوں میں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی درجہ بندی میں ہم سماجی اور انسانی ترقی کے شعبے میں بہت پیچھے کھڑے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ جب انسانی ترقی پر سب سے کم سرمایہ کاری ہوگی تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہماری ترجیحات میں انسانی ترقی کا ایجنڈا ہے ہی نہیں اور ہم جان بوجھ کرکم زور طبقات کو مزید کم زور کرکے حکم راں طبقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ 2017ء میں حاصل کیے گئے اعداد وشمار کی بنیاد پر ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس(ایچ ڈی آئی)کی 2018ء کی رینکنگ میں پاکستان 189ممالک کی فہرست میں 150ویں نمبر پر ہے ۔ بھارت 130ویں، بنگلادیش136ویں اور نیپال 149 ویں نمبر پر ہونے کے سبب ہم سے آگے ہیں۔سری لنکا 76 ویں نمبر کے ساتھ اس وقت پورے خطے کا اسٹارہے، یااسے سب پر برتری حاصل ہے۔

دونوں ممالک میں تعلیم، صحت، روزگار، صفائی اور انصاف، جو انسانی ترقی کو سمجھنے کے ضمن میں بنیادی تصور کیے جاتے ہیں،ان میں ہمیں سماجی اور طبقاتی بنیادوں پر خاصے تلخ حقائق دیکھنے کو ملتے ہیں۔دونوں طرف اس غیر منصفانہ ترقی کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ حقیقی ترقی سے محروم نظر آتا ہے اور اسے یہ محسوس ہوتا ہےکہ حکم رانی کے موجودہ نظام پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان حالات میں ہمیں یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں حکم رانی کاجو بھی نظام ہے،اگر اس میں عام آدمی کاحصہ نہ ہو تو اس کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور وہ نظام اپنی اہمیت کھودیتا ہے۔

جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں

دونوں ملکوں نے یقینی طور پر مختلف شعبوں میں ترقی کی ہے۔ مگریہاں ہمیں یہ سمجھنا یہ ہوگا کہ ہم ترقی سے کیا مراد لیتے ہیں۔ اگر ہماری ترقی کی تعریف میں انتظامی ڈھانچا ہو تو ترقی کی ایک اور تصویر دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن اگر ترقی سے مراد انسانی ترقی ہے تو دونوں طرف ترقی کے عمل میں بہت سی محرومیاں نظر آتی ہیں۔ انتظامی اور تعمیراتی ترقی اہم ہوتی ہے، مگر یاد رکھیں، اگر ترقی کی اس تعریف میں انسان،بالخصوص کم زور طبقے کو اہمیت نہیں دی جائے گی تو ترقی کا عمل جہاں غیر منصفانہ اور غیر شفاف ہوگا وہیں یہ ترقی معاشرے میں محرومی، بغاوت اور ریاستی و حکومتی نظام پر عدم اعتماد کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ اس وقت دونوں معاشروں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا جو بڑا مسئلہ نظر آتا ہے اس کی ایک وجہ دونوں ملکوں میں موجود محرومی کی سیاست بھی ہے جس نے لوگوں میں حکم رانی کے نظام سے لاتعلقی کو جنم دیا ہے۔

ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ ہیومن کیپٹل انڈیکس (ایچ سی آئی) میں ہماری تصویر بہت خراب ہے۔پاکستان آخری 25 فی صد ملکوں میں آتا ہے۔ بھارت دوسری اور سری لنکا تیسری چوتھائی میں آتا ہے۔ ایچ ڈی آئی کے مقابلے میں ایچ سی آئی تھوڑا سا مختلف ہے۔ یہ ان عوامل پر کچھ زیادہ توجہ دیتا ہے جو انسانی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان حالات میں یہ جو دونوں طرف کے حکم راں وسائل کی کمی کا رونا روتے رہتےہیں ان سے پوچھنا چاہیے کہ جو وسائل ہمارے پاس ہیں کیا ہم انہیں بہتر اور منصفانہ انداز میں استعمال کررہے ہیں؟اس کا جواب ہمیں نفی میں ملتا ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ دونوں طرف کے منصوبہ سازوں سے لے کر فیصلے کرنے والوں تک کی ترجیحات میں عام آدمی کی فلاح و بہبود شامل نہیں ہے۔ اوّل تو یہ کہ انہیں عام آدمی کی ترجیحات سے کوئی دل چسپی نہیں ہے، دوم ،وہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کررہےہیں۔

اگرچہ ہمارے اربابِ حل و عقد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے غربت کم کرنے کے تناظر میں بہت کام کیا ہے، مگر نتائج بہت خراب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں امارت اور غربت کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ شیر خوار بچوں کی صحت اور بچوں کی نشوونما کے حوالے سے سست روی کا عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب تک ہماری ریاست تعلیم اور صحت کے شعبے کے لیے جی ڈی پی کا کم ازکم چار فی صد بجٹ مختص نہیں کرے گی،کچھ نہیں ہوسکے گا۔اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد خیال تھا کہ صوبے اپنے زیادہ وسائل کی وجہ سے انسانی ترقی کی صورت حال بہتر بنانےاور غربت کم کرنے پر زیادہ توجہ دیں گے، مگر صوبائی حکومتوں کی نااہلی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بھارت میں بھی تقریبا ایسی ہی صورت حال ہے۔ان حالات میں دونوں طرف کی حکومتیں تعلیم، صحت، روزگار، ماحول اور انصاف کا نظام مؤثراور شفاف بناکر قومی، سماجی اور ترقی کے اشاریے کا نظام قابلِ قبول بنا سکتی ہیں۔اس کے لیے غربت کے خاتمے کا عمل حکومتی ترجیحات اور منصوبہ بندی میں بڑی جرّاحی کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ عمل روایتی اور فرسودہ طریقوں سے نہیں ہوگا۔ اس غیر معمولی صورت حال میں ہمارے اقدامات بھی غیر معمولی ہونے چاہییں جو ہمیں حقیقی ترقی کی جانب پیش قدمی میں مدد فراہم کرسکیں۔

گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے

اپنے پس ماندہ معاشروں کو ترقی کی دوڑ میں شامل کرنے کے بجائے ہم کیا کررہے ہیں اور ہماری ترجیحات کیا ہیں؟اس سوال کا جواب سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں قائم امن پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی ادارے،اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( سپری ) کی جانب سے گزشتہ برس اٹھارہ مئی کو جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں ملتا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں ہتھیاروں کی خریداری پر اتنے زیادہ مالی وسائل خرچ کیے جا رہے ہیں ، جتنے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے آج تک کبھی دیکھنے میں نہیں آئے تھے ۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس عالمی سطح پر فوجی اخراجات کی مد میں 1730 کھرب ڈالرز خرچ کیے گئے،جو سرد جنگ کے بعد ایک نیا ریکارڈہے۔سب سے زیادہ دفاعی بجٹ والےتین ممالک امریکا، چین اور سعودی عرب تھے ۔ روس اس فہرست میں چوتھے اور بھارت پانچوں نمبرپرتھا۔ سعودی عرب نے اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 10 فی صد دفاع پر خرچ کیا ، روس نے 66 ارب ڈالرز اور بھارت نے 64 ارب ڈالر خرچ کیے۔

امن انسان کی بقا کے لیے

اس بارےمیں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں بھی غربت پائی جاتی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سے زیادہ بھارت میں لوگ خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سے زیادہ غربت بھارت میں ہے ۔ایک مؤقر انگریزی جریدے نے غربت سے متعلق اپنی رپورٹ میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں رکھا جہاں غریب طبقے کی آمدن میں قدرے اضافہ ہورہا ہے ،لیکن بھارت کو ان ممالک میں شامل کیا گیا جہاں اس طبقے کی آمدن اوسط سے بھی کم رفتار سے بڑھ رہی ہے ۔ جریدے کاکہنا ہے کہ اکیس فی صدبھارتی شہری عالمی بینک کے مقرر کردہ خطِ غربت، یومیہ 1.9 امریکی ڈالر فی کس آمدن پر، یا اس سے نیچے، زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ایک اور جائزے کے مطابق 26کے قریب غریب ترین افریقی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ غریب ملک بھارت کو قرار دیا گیا ۔ آکسفرڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ اِنِیشی اے ٹیونے اپنی ایک رپورٹ میں غربت کے حوالے سے بھارت کو پس ماندہ ریاست دکھا یا ہے ۔ غربت کی پیمائش کے لیے مرتب کی گئی اس رپورٹ میں صحت، تعلیم ، پینے کے صاف پانی تک رسائی اور بجلی کی دست یابی جیسے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھا گیا تھا جن میں بھارت ایک پس ماندہ ملک ہے۔ آکسفرڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ انِشی اے ٹیو کی ڈائریکٹر سبینا الکائرے کے مطابق دنیا کے تقریباً ایک چوتھائی غریب براعظم افریقا میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم افریقا کے 26 غریب ترین ملکوں سے بھارت کا موازنہ کرتے ہیں تودیکھتے ہیں کہ اس ملک میں بھی لوگ اتنے ہی زیادہ غریب اور محرومی کا شکار ہیں جتنے کہ افریقا میں ‘بلکہ بھارت میں غربت کی شدت افریقی ممالک سے کہیں زیادہ ہے اور یہ پہلو بہت چونکا دینے والا اور توجہ طلب ہے۔

جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف

جدید اسلحہ حاصل کرنے کی دوڑمیں شامل بھارت جیسے ملک میں پس ماندگی، مفلسی اور غربت کااندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب بعض بھارتی شہروں اور مہاراشٹر وغیرہ میں بڑھتی ہوئی غربت کے باعث مخیر حضرات کی جانب سے اپنی مدد آپ کے تحت غریب افراد کے لیے ’’روٹی بینک‘‘ کھلنے لگے ہیں جہاں سے غریبوں کو مفت روٹی ملتی ہے۔ایسا اس لیے ہے کہ ریاست اپنے ا ن شہریوں کی بنیاد ی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے ۔ دوسری جانب اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری)کی جانب سے گزشتہ برس مارچ کے مہینے میں جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق: ’’بھارت نے دس برس میں سو ارب ڈالرز سے زیادہ رقم نئے ہتھیار اور دفاعی نظام خریدنے پر صرف کیے۔وہ دس برس سے اسلحہ اور جنگ کا سازوسامان خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ ان دس برسوںمیں بھارت کی جانب سےہتھیاروں کی خریداری میں چوبیس فی صداضافہ ہوا۔ اس کے برعکس اس مدت میں پاکستان کی جانب سے ہتھیاروں کی خریداری میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی ‘‘۔

سپری کے سینیئر محقق سیمون ٹی ویزے مین کے مطابق: ’’ 2013سے2017کے دوران بھارت بڑے ہتھیار خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک رہا۔ پوری دنیا میں جتنے ہتھیار فروخت ہوئے اس کا بارہ فی صد اکیلے بھارت نے خریدا۔ 2008 سے 2017 تک بھارت کے ہتھیاروں کی خریداری میں جوبیس فی صد کا اضافہ ہوا ۔ روس،بھارت کو اسلحہ فروخت کرنے والا سب سے بڑاملک ہے، لیکن پچھلے دس برسوں میں امریکا سے ہتھیاروں کی خریداری میں 557فی صد کا اضافہ ہوا۔ اسرائیل،بھارت کا تیسرا سب سے بڑا دفاعی سپلائر ہے‘‘۔

سیمون کے بہ قول:’’بھارت سے مسلسل کشیدگی کے باوجود دس برسوں میں پاکستان کی ہتھیاروں کی درآمد میں 36 فی صد کمی آئی۔ یہ پوری دنیا میں ہتھیاروں کی فروخت کا تقریـباً تین فی صدہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں پاکستان میں امریکا سے خریدے جانے والے ہتھیاروں میں 76 فی صد کمی واقع ہوئی‘‘۔

دفاعی ماہرین کے مطابق بھارت نے دس برسوں میں سو ارب ڈالرز سے زیادہ رقم نئے ہتھیاروں اور دفاعی نظام خریدنےپر صرف کی۔اس مدت میںنئے جنگی جہاز، میزائل، آب دوزیں، ٹینکس،ہاوزر توپیں، اسپیشل طیارےاور دیگر ہتھیار خریدنے کے لیے سودے کیے گئے۔

ان حالات میں ایک بھارتی جریدے نے لکھا کہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یونائیٹڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام ) کے وضع کردہ پیمانےکے مطابق بھارت کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت میں زندگی گزارتی ہے ۔ بی بی سی کے مطابق عا لمی اداروں نے انسانی ترقی کے حوالے سے کہا ہے کہ بھارت میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے اور غربت کے ضمن میں اعداد و شمار بھارتی حکومت کے تخمینوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ یو این ڈی پی کے مطابق بھارتی ریاستوں گجرات، یوپی، مغربی بنگال اور آسام کے دیہی علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔بھارت میں اقوام متحدہ کے اس ادارے کی کنٹری ڈائریکٹر نے بھارت کے قومی ادارہ برائے دیہی ترقیات کے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوں تو بھارت مجموعی طور پر غربت میں کمی کے اپنےا ہداف حاصل کرنےمیں مصرو ف ہے، لیکن دیہی علاقوں میں غربت اور افلاس کئی شکلوں میں نظر آتا ہے۔ کاشت کاری کے شعبے میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں اور دیہی لوگوں کے لیے روز گار اور معاشی ترقی کے مواقع توقع کے مطابق بہتر نہیں ہورہے۔انہوں نے بھارتی حکم رانوں کے مسلمانوں سے متعلق متعصبانہ اور شدت پسندانہ رویوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جہاں تک مذہبی بنیادوں پر غربت کا سوال ہے تو بھارت میں مسلمانوں میں یہ شرح سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ مسلمانوں میں غربت کی شرح آسام، اتر پردیش، مغربی بنگال اور گجرات کے دیہی علاقوں میں بہت زیادہ ہے ۔واضح رہے کہ اس سے قبل 2015ء میں بھارت کے منصوبہ بندی کمیشن نے د عو یٰ کیا تھا کہ ملک میں غریبوں کی تعداد میں غیر معمولی کمی ہوئی ہے، لیکن شہری علاقوں میں تناسب کے لحاظ سے مسلمانوں میں بہ دستور غربت بڑھ رہی ہے۔

ٹیکنا لوجی کی جست ۔ہم اور ہمارا پڑوسی

ایک طرف ہم ہیں اور دوسری جانب تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا ہے جہاں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گام زن ہے۔ امکانات کی اس دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی جانب سے گزشتہ برس جون کے مہینے میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا، سنگاپوراور سوئیڈن ٹیکنالوجی کی دنیا میں – سب سے آگے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔یاد رہے کہ 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سوئیڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پرہیں۔یہ چھ ممالک یک ساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں اور امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان تمام ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا۔تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔

کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا اور نیوزی لینڈ 8.87پوائنٹس کے ساتھ مشترکہ طور پر پندرہویں نمبر پر ہیں۔ بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب ہیں۔گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے ۔ تاہم ٹیکنالوجی اپنانے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقا سمیت چاردیگر ممالک کے ساتھ 42ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں اور ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان اور بنگلادیش – تقریبا آخر میں ہیں۔ بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے اوربنگلا دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40پوائنٹس تھے، تاہم موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔

تازہ ترین