حمزہ جاوید
شادی ہالوں میں تو باقاعدہ اسٹال لگائے جاتے ہیں
پاکستان میں سب سے زیادہ جو چیز کھائی جاتی ہے اس میں سب سے بڑا نام "پان" کا ہے۔پان کی گلوری کی صحیح صحیح تاریخ کے بارے میں تو معلوم نہیں، البتہ جب سے ہندوستان میں نوابوں، مہاراجوں اور راج واڑوں کا دورشروع ہوا غالباً اسی وقت سے پان کھانے کا رواج ملتاہے۔ لکھنو کے تہذیبی پس منظررکھنے والی فلموں میں کنیزوں کے ہاتھوں پان کی گلوری پیش کرنے کا تذکرہ بھی موجود ہے ۔مغلیہ سلطنت کا ہر بادشاہ پان کے لطف کا قائل تھا اور بادشاہ کے پان کا بیڑہ اٹھاتے ہی ہر ضیافت اپنے اختتام کو پہنچتی تھی۔الغرض پان ہماری تہذیب سے اس قدر جڑا ہے کہ ہر خاص و عام اس کا دلدادہ ہے۔بیشتر گھروں میں پاندان اور اس کے لوازمات ہوتے تھےاور ان کا بڑا اہتمام کیا جاتا تھا۔ پرانی تہذیبوں کے خاتمے کے ساتھ ہی اب پاندان بھی شاذ شاذ ہی کسی کے گھر میں نظر آتا ہے۔ ان کی جگہ اب پان کے کھو کھو نے لے لی ہے۔ پا ن کی بات ہو اور کراچی کا ذکر نہ ہو ایساہو نہیں سکتا۔کراچی کے شہریوں کی چند خاص عادات ایسی ہیں جو اس شہر کی پہچان ہیں۔ان عادات میں سے سمندر سے کراچی والوں کی محبت، شہر کے حالات جیسے بھی ہوں ’زندگی کی گاڑی چلتی رہتی ہے‘ کی عادت، اور چائے سے نہ ختم ہونے والی الفت شامل ہے لیکن ایک اور چیز بھی ہے جو کراچی والوں کے حواس پر اس قدر سوار ہے کہ شہر بھر میں اس کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں، وہ ہے کراچی والوں کی پان سے محبت۔کہنے کے لئے تو پان بہت چھوٹا سا آئٹم ہے لیکن کراچی میں سب سے زیادہ کھایا جاتا ہے
شہر میں جس جانب نظر گھمائیں، شہر میں جس جگہ نظر گھمائیں گے وہاں پان کا کھوکھا نظر آئے گا اور ساتھ ہی پان تھوکنے والے افراد اور جگہ جگہ پیک کے نشانات ۔۔۔ کیا بات ہے کراچی والوں کی۔ ان ڈھائی بائے چار فٹ کے کھوکھوں میں اتنے اجزا ءسمائے ہوتے ہیں، جس سے پان کی متنوع اقسام تیار کی جاسکیں جو ایک تھکے ہارے مزدور سے لے کسی معروف سماجی شخصیت کے ذائقے کے لیے کافی ہوں۔گٹکا‘ عام ہوجانے سے پان کی مانگ میں واضح طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔لیکن یہ سچ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھر پر پان بنا کر کھانے والی نسل آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی ہے اور یہ تہذیب بھی۔لیکن کھوکھو سے پان کھانے والوں کی تعداد میں زیادہ کمی نہیں آئی ہے۔
پی آئی ڈی سی پر موجود پان شاپ پر دستیاب پان کی قیمت کافی زیادہ ہے۔موجود مہنگا ترین پان بنگلادیش سے آنے والے ’سانچی‘ کے پورے پتے میں بنایا جاتا ہے، اس پان کی قیمت 120 روپے ہے، پان کے پتے کی ایک اور مہنگی قسم ’سلون‘ ہے جو سری لنکا سے آتا ہے۔ ان کےذائقے میں میٹھے ہوتے ہیں اور ساری خاصیت پان کے پتے اور خوشبو میں ہے۔موقع چاہے خوشی کا ہو یا کام کا کوئی تھکا دینے والا دن، پان ہر موقع کے لیے موجود ہے۔
’عام طور پر پان کی قیمت پاکستان بھر میں پانچ روپے سے شروع ہوتی ہے اور دس بارہ روپے پر ختم ہوجاتی ہے، مگر شہر قائد کے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں، جہاں کے پان مشہور تو ہیں ساتھ ان کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ ان علاقوں کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتے۔ مثلا ً وی آئی پی پان، سہاگ پوڑا، پان بیڑا اور ڈسکو گلوری۔ پانوں کی قسمیں سانچی پان، گولٹا پان، سیلون پان، بنگلا پان، بنارسی پان شاید آپ کے لئے بھی یہ نام نئے ہوں کیوں کہ جو پان کھانے کی حددرجہ شوقین ہیں وہ بھی ان قسموں سے کم ہی آشنا ہیں۔
پان کی قسموں سے زیادہ ان کی قیمتیں حیران کن ہیں۔ مثلاً وی آئی پی پان کی قیمت تین سو روپے ہے۔ اس میں چاندی کے اصلی ورق، تازہ گلاب کے پھولوں کی تیار کردہ گلقند ڈالی جاتی ہے ۔ وی وی آئی پی پان کا اندازہ آپ خود لگالیجئے کیوں کہ اس میں اصلی شہداور پھولوں کی گلقند ڈالی جاتی ہے۔ سہاگ پوڑا چار سو روپے میں ملتا ہے اور اسے ایک بار میں کوئی بھی نہیں کھاسکتا لہذا تھوڑا تھوڑا اور رکھ رکھ کر کھایا جاتا ہے ۔ ایک پان کا وزن ایک پاوٴ ہوتا ہے ۔ اس میں چھوٹی الائچی اور میوے ڈالے جاتے ہیں ۔ پستا خاص کر ڈالا جاتا ہے اور چونکہ الائچی کی قیمت اس وقت تین ہزار روپے اور پستہ 2400 روپے کلو ہے لہذا پان پوڑا اگر چار سوروپے میں مل رہا ہے توبھی سستا ہے۔ آخری قسم بچتی ہے 'پان بیڑےکی تو اس کی قیمت ایک سو روپے ہے ۔ اس میں رنگی برنگی پھول پتیاں اور رنگ دار کھوپرا ڈالا جاتا ہے۔
کراچی میں کریم آباد پر واقع دکان پر یہ قسمیں موجود ہیں۔ رنچھوڑلائن، پان منڈی، کھارادر، میٹھادر اور لسبیلہ پر بھی مخصوص دکانوں پر یہ پان دستیاب ہیں۔ گارڈن کے علاقے کی سب سے مشہور اور پرانی دکان گولڈن پان شاپ ہے۔ یہ دکان اس قدر مشہور و معروف ہے کہ کہا جاتا ہے جس نے گولڈن پان شاپ نہیں دیکھی اس نے پان کھانا ہی نہیں سیکھا۔ اس کی کئی شاخیں ہیں جو گارڈن، گلستان جوہر، طارق روڈ، کلفٹن اور ڈیفنس میں واقع ہیں۔ یہاں پانوں کو کچھ قسمیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگر دیوار پر کھینچ کر مار دیا جائے تو شیشے کی طرح کرچی کرچی ہوکر بکھر جاتا ہے۔ایک قسم 'چھوئی موئی پان کی بھی ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ منہ میں رکھتے ہی چھوئی موئی کے پھول کی طرح سکڑتا اور منہ میں گھلتا چلا جاتا ہے۔
کراچی میں خود پان کھانے کا تو رواج ہے ہی، مہمان نوازی بھی پان کے بغیر بعض جگہ ادھوری سمجھی جاتی ہے ۔ اکثر گلہ بھی کیا جاتا ہے کہ ’فلاں کے گھر گئے تھے اس نے تو چائے پانی چھوڑو ،پان کو بھی نہیں پوچھا‘۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر شادیوں میں میزبان کی جانب سے شادی ہالوں پر پان کے باقاعدہ اسٹال لگائے جاتے ہیں جہاں ہر مہمان جی بھر کر مفت پان کھاتا اور گھر لے جاتا ہے۔
پان کی تعریف اور قدردانی اپنی جگہ، مگر پان میٹھا زہر بن کر جو نقصانات پہنچاتا ہے اب کچھ اس کا تذکرہ بھی ہوجائے۔
پان یعنی ایک مخصوص قسم کا پتہ جس کی بیل ہوتی ہے، درخت نہیں۔ چھالیہ، چونا اور تمباکو سب ملاکر پان کی گلوری بنتی ہے اور بھارت ، پاکستان، بنگلہ دیش اوردنیا کے ان تمام ممالک میں پابندی کے باوجود ، صحت کو پہنچنے والے سخت نقصانات جاننے کے باوجود پان چبایا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں جن بیماریوں سے سب سے زیادہ لوگ مرتے ہیں ان میں کینسر بھی سرفہرست ہے۔ سول اسپتال کراچی کے کینسر یونٹ کے جاری کردہ اعداد وشمار اس سے بھی زیادہ بھیانک ہیں۔ کراچی اوراندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے 23 فیصد کینسر کے مریض پان اور تمباکو کے سبب بیمار ہوئے ۔منہ کا کینسر، گلے کا کینسر، دانتوں کا کینسر، حلق کا کینسر، گال کا کینسر اور اس جیسی متعدد خطرناک بیماریوں کا 'موجد پان جنوبی ایشیائی ممالک کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے ہر قسم کی پابندی سے مستثنیٰ ہے۔ پاکستان ہی کی مثال لے لیجئے یہاں ماہانہ لاکھوں ٹن پان بھارت ، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے درآمد ہوتا ہے۔ سمجھوتا ایکسپریس ہو یا تھر ایکسپریس، دوستی بس ہو یا ہوائی سفر سب سے زیادہ پان ہی غیر قانونی طور پر پاکستان آتا ہے۔ یہ پان ہی کی 'برکت ہے کہ دونوں جانب کے حکام لاکھوں اور کروڑوں روپوں سے کھیل رہے ہیں۔
لاہور کا انار کلی بازار ہو یا دوسری چھوٹی بڑی مارکیٹیں آپ کو بھارتی ، بنگلہ دیشی اور سری لنکن پان، چھالیہ ، گٹکا اور تمباکو کی دکانیں کی دکانیں لدی ہوئی ملیں گی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مقامی سامان کے مقابلے میں یہ سامان مہنگا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اسے ہی ترجیح دیتے ہیں۔
خلیجی ممالک خصوصاً متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں پان کھانے پر پابندی ہے لیکن وہاں بھی وہ چوری چھپے مل جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی ریاست ابو ظہبی میں پان کھانے والے پر دس ہزار درہم جرمانے کی سزا ہے ۔ سعودی عرب میں پان کھانے والے پر مقدمہ درج کردیا جاتا ہے، جہاں اسے جیل میں قید و بند کی سزائیں دی جاتی ہیں اور بسا اوقات سزا کے بعد اسے ڈیپورٹ بھی کردیا جاتا ہے۔
سخت قانون کے سبب وہاں پان نہ کھاسکنے والے جتنے دن بھی اپنے وطن میں گذارتے ہیں دانستہ اوربہانے بہانے سے پان چباتے رہتے ہیں ۔ ایسے میں قریبی رشتے داروں کی ہمدریاں بھی ان کے ساتھ ہوجاتی ہیں اور گھر کے بڑے بوڑھے تک کہہ اٹھتے ہیں۔۔ ’چلو بھئی کھانے دو پان جی بھر کے۔۔ واپس جاکر آزادانہ پان کھانے کو کہاں ملیں گے۔۔‘یا پان کھانے والا خود رشتے داروں کی ہمدریاں سمیٹتے ہوئے کہتا ہے ۔۔’بس یہیں تک کی بات ہے۔۔۔پھر اگلے سال جب آئیں گے تو ہی پان کھانے کو ملے گاحالانکہ کہ ذرا سا غور کیا جائے تو محسوس ہوگاکہ پان کھانے والا پیسے دے کر اپنے ہی لئے موت خرید تا ہے۔