• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم: عالمی امن ایک بار پھر داؤ پر لگ گیا

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے بھارت کا حصہ بنانے کے اقدام سے پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ کے خدشات بڑھ گئے ہیں جس نے پاکستان کے اندر سیاسی جماعتوں اور حکومت کے مابین اختلافات کو ایک طرف رکھ کر قومی اتحاد و اتفاق کی ضرورت پیدا کردی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن کو کسی بھی طرح ریلیف دینے کے حق میں نہیں، تاہم مسئلہ کشمیر کے اجاگر ہونے کے بعد ترجیحات کا از سر نو تعین ضروری ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ او آئی سی بھی اقوام عالم پر زور دے رہی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدام دراصل اس موقف کے خلاف جارحانہ یوٹرن ہے جس کے تحت بھارت نے 1948ء میں مسئلہ کشمیر کا حل استصواب رائے کو تسلیم کیا تھا۔ بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35اے کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر میں ہر کسی کے جائیداد خریدنے پر عائد پابندی ختم کردی ہے جس کا مقصد مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش ہے۔ بھارتی آئین کےآرٹیکل 370کو صدارتی آرڈینینس سے ختم کردیا گیا ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کی الگ حیثیت ختم کرکے اسے بھارتی یونین کا علاقہ قرار دے دیا ہے، اس بھارتی اقدام کے خلاف صرف مقبوضہ کشمیر میں ہی احتجاج نہیں ہو رہا بلکہ پاکستان، آزاد کشمیر اور دنیا کے دیگر مقامات پر کشمیری آواز بلند کررہے ہیں۔ بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کے نتیجہ میں پاک بھارت ٹکرائو کے خدشات بڑھ گئے ہیں جو ایٹمی جنگ میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی مگر بھارت نے امریکی صدر کی پیشکش کو ٹھکرا کر مقبوضہ کشمیر میں جبرواستبداد تیز کردیا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر کلسٹر بم گرائے جارہے ہیں ،بھارت نے سات لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی کے بعد مزید10 لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں داخل کردی ہے۔ ریڈیو، ٹی وی اورسوشل میڈیاپر مکمل پابندی لگادی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو نظرانداز کرکے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں اقوام عالم کو بھارت میں مداخلت کا حق دیتی ہیں لیکن اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان نے بھارت کی اس جارحانہ پالیسی پر خاموشی اختیار کی تو دو ایٹمی ملکوں میں خطرناک ٹکرائو کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔

سینیٹ چیئرمین کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں ناکامی کے بعد اپوزیشن جماعتیں ایک طرف تو ووٹ فروخت کرنے والے ارکان کو تلاش کررہی ہیں جبکہ دوسر ی طرف مولانا فضل الرحمٰن ایک بار پھر بلاول بھٹو اور شہباز شریف سے رابطہ کرکے اپوزیشن میں پیدا ہونے والی دراڑ کو بھرنے میں مصروف ہیں، اپنے ٹیلیفونک رابطے میں تینوں رہنمائوں نے چیئرمین سینیٹ انتخاب میں ناکامی کے اصل حقائق اور مخالف کردار سامنے لانے کے عزم کا اظہار کیا ، عیدالاضحی سے قبل تینوں رہنمائوں کے اکٹھے مل بیٹھنے کا بھی امکان ہے۔ اپوزیشن مخالف حلقوں کا دعویٰ ہے کہ چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ مریم نواز کی عوام رابطہ مہم کارکنوں کو اکھٹے کرنے کا موجب بن رہی ہے۔ نیب کے پاس پیشیوں کے باوجود اس کے بیانیے میں تبدیلی نہیں آرہی، مریم نواز احتساب عدالت کے جج کی ویڈیو کی روشنی میں اپنے پابند سلاسل باپ کی کوٹ لکھپت جیل سے رہائی پر زور دے رہی ہیں ۔ حکومت اس بات کی خواہاں ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت مبینہ طورپر لوٹے گئے پیسے قومی خزانے میں جمع کروا کر’’ این آر او‘‘ لے سکتی ہے۔ نیب کی طرف سے نوٹسز جاری ہونے کے بعدسابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے نام لئے جارہے ہیں۔ نوازشریف، حمزہ شریف، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ اور شاہد خاقان عباسی کے بعد گرفتاریوں کا کام رکا ہوا ہے، دو بڑی قومی جماعتوں کے دو بڑے نام فوری طورپر تو نہیں مگر عیدالاضحی کے بعد یقینی طور پر زد میں آنے والے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کے بعد پاکستان میں موجود حکومت اپوزیشن اختلاف رائے کو ختم نہیں تو کم از کم سٹیٹس لو پر رکھنے کی ضرورت پیدا ہوگئی ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن قومی اسمبلی اور سینیٹ کے پلیٹ فارم سے گروپوں کی شکل میں اقوام متحدہ او آئی سی سمیت دیگر عالمی تنظیموں سے رابطہ کرکے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا جائے۔ سیاسی حلقوں کاکہنا ہے کہ حکمران جماعت اپنے سیاسی مخالفین کو کسی رعایت کی مستحق نہیں سمجھتی، وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر،سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف، ان کے صاحبزادوں، بیٹوں اور داماد کے علاوہ مریم نواز پر بھی رقوم منتقلی کے الزام لگارہے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ(ن) ،پاکستان پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ حکومت سے مل کر بھارتی اقدامات کا موثر جواب دے سکیں۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے تمام سینیٹرز نے اپنے استعفے پارٹی چیئرمین کو دے دیے تھے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک نے اپوزیشن کو تمام ایوانوں سے استعفے دے دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر ان کی اس تجویز کو اعلیٰ قیادت کی سرپرستی نہ مل سکی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کے بارے میں کئے گئے فیصلے کے صرف بھارت ہی نہیں پاکستان اور اس کے پڑوسی ممالک پر بھی سنگین اثرات مرتب ہونگے۔ مقبوضہ کشمیر میں حکومت مخالف اور حکومت کے حامی کشمیری رہنمائوں عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، سجاد لون کو بھی نظربند کردیا گیا ہے جبکہ یٰسین ملک پہلے ہی ایک سال سے پابند سلاسل ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندر یار ولی آج بھی جنگ کیخلاف اور امن کے داعی ہیں، کشمیریوں پر بھارتی جبرو استبداد کے باوجود اسفندر یار ولی کاکہنا ہے کہ جنگ یا جنگی جنون کسی مسئلے کا حل نہیں مذاکرات سے ہی مسائل کا حل ممکن ہے۔ سرحدی صورتحال پر ہم ایک ہیں خطے کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ دنیاجانتی ہے کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی قوت ہیں لہٰذا دونوں پڑوسی ممالک کی بقا اور سلامتی کا تقاضا یہی ہے کہ اشتعال انگیزی اور دھمکیوں سے گریز کرتے ہوئے عاقبت اندیشی اور مفاہمت کی راہ اختیار کی جائے ۔ چند روز قبل ہی تحریک عدم اعتماد سے بچنے والے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کشمیریوں پر بھارتی مظالم، مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت کے باوجود اس کی ریاستی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے خلاف دنیا بھر کی پارلیمنٹس کے اسپیکرز اور پارلیمانی سربراہوں کو خط لکھ دیا ہے ،چیئرمین سینیٹ نے اہم ممالک کے اسپیکرز سے ٹیلیفونک رابطے بھی کئے ہیں جنہیںکشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے حمایت کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سربراہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں حکومت کو اپنی اور اپنی جماعت کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرادی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات پر تحفظات کے باوجود ہم نے جمہوریت کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے حلف اٹھایا اسی طرح چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں خرابی کے باوجود ہم بھارت سے کشیدگی کے موقع پر حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی پاکستان کی مشرقی سرحد پر پیدا ہونے والی کشیدگی کو امن عالم کیلئے خطرہ قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ پوری قوم اس موقع پر ایک پلیٹ فارم پرمتحد ہے۔ وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کا دعویٰ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میںحالات مزید خراب ہونگے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ذہنی طور پر دہشت گرد ہے وہ اسرائیلی طرز کا سٹرکچر مقبوضہ کشمیر میں لانے کا خواہاں ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کاکہنا ہے کہ بھارت کلسٹر بموں سے بڑی تباہی پھیلاتا ہے ،دنیا نوٹس لے حکومت پوری جرات سے معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھائے۔ اقوام متحدہ میں مستقل نائب وزیر خارجہ مقرر کیا جائے۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر عالمی کانفرنس بلانے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے پاکستانی سفارتخانوں میں الگ کشمیر ڈیسک قائم کرنے کامطالبہ کر دیا، ان کاکہنا تھاکہ بھارت نہتے کشمیریوں پر ظلم کی انتہا کرچکا ہے جس پر عالمی برادری کی خاموشی کاکوئی جواز نہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین