• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انعم وحید ، سمبڑ یا ل

’’بھلا بتاؤ گھر میں برکت ہو، تو کیسے ؟‘‘ ابّا نےاچانک بڑبڑانا شروع کردیا۔ ’’ارے شاہ صاحب! یہ کیڑے مکوڑے مارنے کی بہترین دوا ہے،اس سے چندمنٹوں میں چیونٹیاں مر جاتی ہیں۔ دُکان دار یہ کہتے ہوئے خاتون کی جانب متوجّہ ہوا،جنہوں نے چیونٹیاں مار پاؤڈر مانگا تھا ، مگر اب ابّا کی بات سُن کر حیران کھڑی ، انہیں وضاحت طلب نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔ ’’جی باجی! آپ کو اور کچھ چاہیے؟‘‘ ’’ٹھیک ہے بھائی،تم ایسا کہہ سکتے ہو، تمہاری تودُکان داری کا معاملہ ہے، مگر گھر سے چیونٹیاں بھگانے کا یہ طریقہ میری سمجھ سے توبالا تر ہے۔‘‘ ابّا اپنی بات پر قائم تھے۔

یہ 1986ء کی بات ہے،مَیں ابّا کے ساتھ مہینے کاسودا سلف لینے جنرل اسٹور گیا ، جہاں ایک خاتون کیڑے مار پاؤڈر خریدنے آئی تھیں۔ ’’کمال بھائی ! گھر میں بہت چیونٹیاں ہوگئی ہیں، کوئی اچھا کیڑے مار پاؤڈر دے دیں۔‘‘انہوں نے آتے ہی دُکان دار سے کہا۔دُکان دار، جو اُس وقت ہمارے لیے کالی مرچیں تول رہا تھا۔جھٹ مُڑا اور کیڑے مار پاؤڈر کی ایک بوتل لے آیا۔ ’’یہ کیا ہے ؟ ‘‘ابّا کے ماتھے پر بل آگئے۔ ’’شاہ صاحب ! یہ بڑا بہترین پاؤڈر ہے، منٹوں میں چیونٹیوں کا خاتمہ کر دیتا ہے اور انسانی صحت کے لیے بھی مضر نہیں ۔ مَیں تو اپنی دُکان اور گھر دونوں جگہ استعمال کرتا ہوں۔‘‘ابّا کے استفسار پر کمال بھائی کی آنکھوں میں پاؤڈر والوں کا کمیشن لہرانے لگا۔ ’’ہاں ، ہاں یہ سب باتیں تو اپنی جگہ ٹھیک ہیں ،مگر چیونٹیوں کو کون مارتا ہے بھلا ؟ آخر وہ کسی کا کیا بگاڑتی ہیں؟ ‘‘ابّا نے حیرانی سے خاتون کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا۔’’تو کیا کروں انکل؟ مَیں تو چیونٹیوں سے پریشان ہو گئی ہوں ۔ بال بچّوں والی ہوں، بچّوں کی صحت کا خیال تو رکھنا ہے ناں۔ شوہر سے کہا تو انہوں نے بھی جھاڑ پلا دی، کہنے لگے’’امّی کی زندگی میں تو ہمیں کبھی چیونٹیوں نے پریشان نہیں کیا،کیوں کہ وہ گھر کو بالکل صاف سُتھرارکھتی تھیں ۔ ‘‘ آپ کو کیا لگتا ہے، مَیں گھر کی صفائی نہیں کرتی ؟ کیا مَیں آپ کو پھوہڑ دکھائی دیتی ہوں؟‘‘ خاتون نے نہ صرف اپنا دُکھڑا رونا شروع کیا، بلکہ ابّا سے سوالات بھی کرنے شروع کردئیے۔ اور ابّا جو ان سوالات کے لیے بالکل تیار نہ تھے، ایک دَم پریشان ہو گئے۔’’ نہیں بیٹا! مَیں تو بس یہ کہہ رہا ہوں کہ چیونٹیوں سے نجات کے لیے تم ایک مُٹھی آٹا ڈال دیا کرو ۔ یہ بے چاری ننّھی مخلوق تو صرف رزق کے لیے باہر آتی ہے ۔‘‘ابّا کے لہجے میں زمانے بھر کی شفقت دیکھ کر ماڈرن خاتون نے غیر محسوس انداز میں دوپٹّا سر پر لیتے ہوئےکہا، ’’انکل! کیا اس طرح مجھے چیونٹیوں سے نجات مل جائے گی؟ ‘‘’’کیوں نہیں بیٹا، پرانے زمانے سے یہی رواج چلا آرہا ہے ،اِدھر گھر میں چیونٹیاں نظر آئیں، اُدھر بڑی بوڑھیوں نے مُٹھی بھر آٹا کونوں میں ڈال دیا ،چیونٹیوں سے بھی نجات اور صدقے کی نیکی مفت میں۔ ‘‘ابّا ہنسنے لگے، تو خاتون کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔’’چلیں میں بھی پھر…آٹا… ہی ڈال دوں گی۔‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے کیڑ ے مار پاؤڈر وہیں کاؤنٹر پر چھوڑ کر واپسی کے لیےمڑ گئیں۔ اورکمال بھائی نے ابّا کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے دوبارہ کالی مرچیں تولنا شروع کردیں۔

’’ ابّا! آپ نےکمال بھائی کی دُکان داری خراب کردی ۔‘‘ واپسی پر مَیں نے ابّا سے ہنستے ہوئے کہا۔’’ ایسی بات نہیں ہےبیٹا ،ہمارے گھروں سے برکتیں اسی لیے اُٹھ گئی ہیں کہ لوگوں نے اللہ کی مخلوق کا خیال رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ پہلے کسی گھر کے سامنے کُتّابھی آکر بیٹھ جاتا ، تو گھر کی خواتین اُس کے سامنے بھی کچھ نہ کچھ کھانا ڈال دیتی تھیں،مگر اب ایسا نہیں ہوتا، کیوں کہ اب توروٹیاں تک گِن کر پکائی جاتی ہیں۔ برکت کیسے ہوگی؟ اس قوم پر قدرتی آفات، بھوک و افلاس کی صُورت عذاب نازل نہیںہوں گے، تو اور کیا ہوگا؟‘‘ابّا کے لہجے سے تاسف صاف جھلک رہا تھا۔ اس واقعے کے کئی دن بعد مَیںایک روز بڑے بھائی کے گھر گیا۔ ابھی ڈور بیل بجانے ہی والا تھا کہ چڑیوں کے جُھنڈ کی آواز کانوں سے ٹکرائی، چونک کر اوپر دیکھا تو پتا چلا کہ مرکزی دروازےکے دونوں جانب مٹّی کے کُونڈے رکھے تھےاور چڑیاں دانہ چُگ رہی تھیں ۔ مجھے دیکھ کے اُڑگئیں، مگر ابھی بھی زیادہ دُور نہیں گئی تھیں بلکہ مُنڈیر پر اِدھر اُدھر پُھدک کر میرے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ بھتیجی نے دروازہ کھولا تو میں اندر داخل ہوگیا۔ ’’بھابھی ! مُنڈیر پر کُونڈے کس نے رکھے؟ یہاںروز ہی اتنے سارے پرندے آتے ہیں؟‘‘مَیں نے سلام کے بعد خوش گوار حیرت سے بھابھی سے پوچھا، جو کچن کی کھڑکی سے کھانا پکاتے ہوئے مجھے دیکھ کرمُسکرا رہی تھیں۔’’یہ کُونڈے تمہارے بھائی جان نے رکھے ہیں۔‘‘ شام کو بھائی جان گھر آئے، تو مَیں نے پوچھا، ’’بھائی جان! چڑیوں کے لیے دانہ رکھنے کی کوئی خاص وجہ ؟آپ کا مزاج بھی ابّا جیسا ہوتا جا رہاہے؟‘‘ ’’ مَیں چاہے کتنی بھی کوشش کرلوں، ابّا کے قدموں کی دُھول بھی نہیں ہو سکتا۔یہ کُونڈے تو اس لیے رکھے ہیں کہ صدقہ دینا اچھا ہوتا ہے، دیتے رہنا چاہیے۔اور ویسے بھی بیٹیوں کے والدین کو صدقہ دیتے رہنا چاہیے، تاکہ بچّیوں کا نصیب اچھا ہو۔ ایک مرتبہ کسی بزرگ کے پاس ایک غریب شخص آیا اور عرض کیا کہ ’’مَیں بیٹیوں کے رشتے کے حوالے سے بہت پریشان ہوں، میری غربت کی وجہ سے کوئی اُن سے شادی ہی نہیں کرتا۔ ‘‘ بزرگ نے اُسےمشورہ دیا کہ روز دو سو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ، تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ غریب آدمی بزرگ سے تو کچھ نہ کہہ سکا، البتہ آستانے سے باہر آکر زاروقطار رونے لگا۔ پاس سے گزرتے کسی دانا نے پوچھا ، روتے کیوں ہو؟غریب آدمی نے سارا واقعہ کہہ سُنایا اور پھر کہا کہ خاندان کے لیےدو وقت کی روکھی سوکھی کا انتظام مشکل ہوجاتا ہے، روز دو سو بھوکوں کو کھانا کیسے کھلاؤں؟‘‘ دانا آدمی نےمُسکراتے ہوئے کہا ’’ارے بھلے مانس! کیابھوکا صرف انسان ہوتا ہے؟ بھوک تو اللہ کی ہر مخلوق کو لگتی ہے۔اگر تم ایک مُٹھی آٹا بھی چیونٹیوں کو ڈال دو گے ،تو سمجھو تم نے سیکڑوں بھوکوں کو کھانا کھلا دیا۔‘‘یہ کہہ کردانا آدمی اپنی راہ اور غریب اپنی راہ چل دیا۔کچھ ہی عرصے بعد وہ اپنی بیٹیوں کے فرائض سے بھی سبکدوش ہوگیااورمعاشی حالات بھی بہتر ہوگئے۔‘‘ بھائی جان جس وقت یہ واقعہ سنا رہے تھے،مجھے ابّا کی مٹھی بھر آٹے والی بات یاد آرہی تھی۔

مَیں نے آنے والے دنوں میں دیکھا کہ بھائی جان نے اپنی چاروں بیٹیوں کی شادیاں صحیح عمرمیں کر دیں۔ پھرجب مَیں نے اپنا گھر لیا، تو سب سے پہلے دروازے کے پاس پرندوں کے دانے، پانی کے کُونڈے رکھے۔میرے گھر کبھی رزق کی تنگی نہیں ہوئی۔ اللہ ربُّ العزّت نے ہمیشہ دسترخوان وسیع اور بھرا رکھا۔ اس کے علاوہ آج تک مَیں نے اپنے بچّوں کاخون بہتا نہیں دیکھا،انہیں کسی تکلیف سے تڑپتے نہیں دیکھا۔ اور پھر ایک وقت ایسا آیا ،جب میرا گھر’’کبوتروں والا گھر‘‘کے نام سے مشہور ہوگیا۔ مَیں بھی ایک عام مڈل کلاس بندہ ہوں، جس کی تن خواہ اور وسائل محدود ہیں، مگر اللہ پاک نے رزق میں برکت دی ہے۔ جب بھی لوگوں کو روزی میں بے برکتی کا رونا روتے دیکھتا ہوں ،تو انہیں یہ راز بتا دیتا ہوں، تاکہ سب کا بھلا ہو۔ اکثر مجھ سے سوال کیا جاتا ہے کہ’’ آخر اس منہگائی میں کیسے گزا رہ کر لیتے ہو؟ ہم سے تو نہیں ہوتا۔ ‘‘ اور میرا جواب بس یہی ہوتا ہے کہ ’’ مَیں نے اپنی زندگی اللہ کی ننّھی مخلوق کی خدمت کرکے آسان بنائی ہے۔ تمام بڑائیاں اُس ربّ کے لیے ہیں،جس نے مجھے اس قابل بنایا کہ مَیں اُس کی مخلوق کے کام آسکوں۔‘‘اللہ ہم سب کو صدقات دینےکی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

تازہ ترین