• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکرفردا … راجہ اکبردادخان
مقبوضہ جموں و کشمیر میں تحریک آزادی طویل عرصہ سے عروج کی اس انتہا پر پہنچ چکی ہے جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نظر نہیں آتا۔ وہاں انسانی جانوں کا ضیاع ایک روٹین بن چکا ہے۔ گرفتاریاں اورتشدد کے نتیجے میں زخمیوں کیبڑی تعدادوادی کے کئی اضلاع میں تکلیف منظر پیش کرتی ہیں۔ پچھے چندہفتوں سے برٹش میڈیا بھی وہاں کی دلخراش صورتحال پہ بول رہا ہے اور اس طرح کئی یورپی ممالک سے بھی صورتحال پر تشویش کے اظہار مل رہے ہیں۔وادی کے کئی حصے چوبیس گھنٹے کرفیو تلے ہیں۔ موبائل فون سروس بھی بند ہے اور انٹرنیٹ سروس بھی۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھی خوراک اور ادویات کی قلت کی بات کررہے ہیں۔ تجارتی مراز بند ہیں وادی میں بھارت SHOOT TO KILL پالیسی پہ عمل کررہا ہے۔ ایسے تمام اقدامات کے نتیجہ میں سرینگر کے کئی اضلاع ایک کھلی جیل کا منظر پیش کرتے ہیں۔ عید کے ارد گرد پہ ممکنہ مزاحمت کا ماحول بن چکا ہے۔ بھارت نے جب اس ریاست کی شناخت چھین لی ہے تو اس اقدام کی شدید مخالفت ایک فطری عمل ہوگا۔ کئی اہم مغربی اخبارات کشمیر کو ایک BOILING POT سے تشبیح دے رہے ہیں۔نہ ہی مسلمان ممالک کشمیریوں کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں۔ اور نہ اہم مغربی ممالک، یورپ سے بھی زیادہ مضبوط آوازیں نہیں اٹھ رہیں۔ پاکستان اس معاملہ میں ایک فریق بھی ہے مگروہاں سے بھی جارحانہ سفارتکای دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ حالات کا تقاضا ہے کہ جونہی بھارت نے 370شق ختم کی۔ سفارتکاروں کے وفود دنیا بھر میں روانہ ہو جائیں۔ ایسے وفود میں سابق سفراء اور اس ایشو پرعلمی اور جنگی امور پرعبور رکھنے والوں کو شامل کرکے بھارت کو تنہا کیا جائے۔ موقع کی نزاکت تقاضا کرتی ہے کہ وزیر خارجہ کی ٹیم کو وفد اور دیگر سفارتی اقدام کی مدد سے مضبوط کیا جائے۔ اکیلے وزیر خارجہ کیلئے بوجھ بہت زیادہ ہے۔ ماضی میں جب بھی اہم مواقع پہ بھارت کے ساتھ معاملات بہتر ہونے کے بجائے بگڑے۔ تو تمام ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ اور سول حکوت کے درمیان اختلافات پر ڈال کر جان چھڑا لی گئی۔ آج فوج اور سول حکومت بظاہر ایک ہی پیج پر ہیں۔ اس موقع پر حکومت کا جموں کا شکار ہو جانا پریشان کن ہے۔ اس میں قطعی کوئی ہرج نہیں کہ خارجی امور پہ وزیر خارجہ ہی بات کریں۔ لیکن آج پاکستان کو ایک غری معمولی صورتحال کا سامنا ہے۔ کشمیر کے معاملہ پہ اس کا رول ختم کیا جارہا ہے کشمیر میں ’’اب یا کھبی نہیں‘‘ کے ماحول کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم اس ایشو پہ قوم کو اعتماد میں لیں اور ایسے اقدام اٹھائے جائیں جن سے دنیا کو پیغام پہنچے کہ پاکستان بات اس مسئلہ کو حل کی طرف لے جانے کا خواہشمند ہے۔ ہمارے بیانات اور اقدامات میں ایسی INTENSITYکا عنصر موجود نہیں۔ اپوزیشن کا رویہ بھی غیر ذمہ دارانہ ہے اور انہیں بھی نہیں معلوم کہ کیا اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں جن سے کشمیریوں کی مشکلات میں کمی آسکے۔ افسوس ناک ہے یہاں سے بھی لیڈ نہیں مل رہی۔ ذمہ داری بالآخر حکومت کی ہے کہ وہ اس اہم ایشو پرجاندار لائحہ عمل کی شکل میں قیادت فراہم کرے۔ تمام حالات پہ یقیناً نیشنل سیکورٹی کونسل کے ذریعہ نظر رکھی جارہی ہے مگر حالات کا تقاضا اس سے کہیں زیادہ ہے کہ قومی اعتماد کی خاطر ایک موقف اختیارکرلیا جائے۔ اور اس پر جارحانہ عمل ہوتا نظرآئے۔ ہمارا موقف اگرچہ واضح ہے کہ کشمیر ایک متنازع ایشو ہے اور اس پہ بین الاقوامی قرار دادوں کے مطابق کام ہونا چاہئے۔ مگر پاکستان بسا اوقات EXPIEDENCY کی خاطر شارٹ کٹ اپنانے پہ بھی تیار ہو جاتا ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگ بہت قربانیاں دے چکے ہیں یہ کہہ دینا کہ وہ اسی سطح پہ تحریک کو مزید کئی برسوں تک جاری رکھ سکتے ہیں کسی اچھی تقریر کا حصہ تو ہوسکتا ہے۔ مگر عملی طور پہ ایسا ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ اقوام متحدہ پر یقین کرنے والی نسلیں تو ختم ہو چکی ہیں۔ آج کے نعرے بھی مختلف ہیں او حالات بھی۔ علاقائی بہبود کیلئے اس مسئلہ کا حل ہونا ضروری ہے۔ کہتے ہیں امن کی خاطر جنگ کیلئے تیار رہنا پڑتا ہے۔ اگر کہیں پاک بھارت جنگ چھڑ جاتی ہے تو دنیا اسے زیادہ پھیلنے نہیں دے گی کیونکہ سب کو علم ہے کہ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ اس لئے جو لوگ اس میں یقین رکھتے ہیں کہ ایک چھوٹی روایتی جنگ فوری بیرونی مداخلت کی وجہ بن کر اس معاملہ کو مقامی سے بین الاقوامی سطح پر لے جاسکتی ہے ایک وزن دار دلیل ہے ایک دفعہ معاملہ INTERNATIONALISE ہوگیا تو اس کا حل بھی نکل آئے گا۔ ایسے حالات میں ہمارے پاس مضبوط سفاتی ٹیمیں ہونی چاہئیں۔ جو بھارت بات منوا سکیں۔ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ حکومت کو پاکستانی قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے ملک کے مستقبل کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے ہوں گے کہ یہ ملک اپنے اس مقدمہ میں کس حد تک جانے کو تیار ہے؟ نہ ہی پاکستان اور نہ ہی کشمیریوں کیلئے ممکن ہے کہ وہ کسی طویل جنگ خواہ وہ سفارتی ہو یا فوجی کا حصہ بنے رہیں۔ پاکستان نے بھی آگے بڑھنا ہے اور کشمیریوں کی زندگیاں بھی پرامن ماحول کی متلاشی ہیں۔ حکومت کو حالات کی سختی اور امن کی خواہشکے درمیان راستے تلاش کرنے میں قائدانہ رول ادا کرنا چاہئے۔ جو کہیں نظر نہیں آرہا۔ ماضی میں مشرف فارمولا جس میں ریاستی وحدت قائم رکھتے ہوئے ایک ممکنہ حل کی تصویر کشی کی گئی تھی۔ مگر 370ختم ہونے کے بعد ہمارا واسطہ ایک مختلف صورتحال سے ہے۔ جب حق خود ارادیت پہ بات آگے نہیں بڑھ رہی ۔ تو لازم ہے کہ پاکستان اپنے دوسرے NARTIVES کو سامنے لائے۔ مسئلہ کے ممکن با اعزت حل کیلئے نادرن آئر لینڈ جیسے مچل کمیشن جیسی مثالوں سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ بھارت کی اٹوٹ انگ سوچ سے نمٹنا مشکل تو ہے۔مگر او آئی سی جیسے اداروں کو متحرک کرکے موجودہ جمود سے نکلا جاسکتا ہے۔ اللہ پاکستانی اور کشمیری عوام کی اس حالت اضطراب میں ان کا حامی و ناصر رہے۔
تازہ ترین