نوجوان کسی بھی ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے، ڈوبتی کشتی کو کنارے لگا سکتا ہے۔ انہیں یوں ہی مستقبل کا معمار نہیں کہا گیا، یقیناً ان کی صلاحیتوں کو درست سمت میں بروئے کار لایا جائے تو ملک ترقی کی راہ پر یقیناً گامزن ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر میں نوجوان قوم کا قیمتی سرمایہ تصور کئے جاتے ہیں، انہیں معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر ریڑھ کی ہڈی ہی ناتواں ہو تو پورا جسم کمزور پڑ جاتا ہے، جسم میں سکت نہیں رہتی۔ راہ راست ہی نوجوانوں کی مضبوطی کی ضمانت ہے۔ دنیا میں وہی قومیں ترقی کر رہی ہیں، جن کے نوجوان درست سمت پر چل رہے ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی نوجوانوں میں قابلیت اور ذہانت کی کمی نہیں، اس کا منہ بولتا ثبوت وہ نوجوان ہیں جو مختلف شبعہ ہائے زندگی میں، مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں، جو ان کا خاصا تصور کی جاتی ہیں۔ ان میں ہمت ہے، جذبہ ہے، قابلیت ہے، ذہین ہیں، بہادر ہیں اور محنتی بھی ہیں۔ اس کے باوجود وہ ڈگریاں ہاتھ میں لیے مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن اُنہیں روزگار نہیں مل رہا۔ نوجوان مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے، سخت محنت اور بھاری بھرکم فیسوں کی ادائیگی کے بعد ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ان کے تمام خواب اس وقت ٹوٹ جاتے ہیں جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی ملازمت نہیں ملتی، اور نہ ہی انہیں کبھی کسی قسم کے ہنر سیکھنے کی جانب راغب کیا جاتا ہے کہ مشکل وقت میں وہ اپنے ہنر سے مستفید ہوسکیں۔ ایسی صورت میں وہ وہیں کھڑے رہتے ہیں جہاں ڈگری حاصل کرنے سے قبل۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روزگار کی عدم فراہمی، سرکاری ملازمتوں پر پابندی اور ملکی معاشی مسائل کے الم ناک تناظر میں حکومتی سطح پر پر ٹھوس اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت نے نیشنل یوتھ ڈویلپمنٹ انڈیکس پروگرام فوری طور پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ پروگرام چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے ادارے سمیڈا کے اشتراک سے شروع کیا جائے گا۔ اس منصوبے کا نام ’’کامیاب نوجوان پروگرام‘‘ رکھا گیا ہے۔ 100 ارب روپے کے بجٹ سے شروع ہونے والے اس پروگرام کے تحت حکومت مختلف شعبوں میں چھوٹے اور درمیانے کاروبار کے ذریعے روزگار کے دس لاکھ مواقع پیدا کرے گی۔ یہ پروگرام حکومتی سطح پر نوجوانوں کو معاشی طور پر خود مختار بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ اقوام متحدہ نے بھی اس منصوبے میں تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اقوام متحدہ کے حکام کے مطابق اس منصوبے کے لیے 30 ملین ڈالرز مختص کیے گئے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت نوجوان کاروبار میں مصروف ہوکر معیشت کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کریں گے۔ اس سے غربت و بے روزگاری پر قابو پایا جاسکے گا۔ پاکستان کی مجموعی آبادی کا 65 فیصد 18 سے 35 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے، جس میں 52 فیصد خواتین ہیں، اس پروگرام کے تحت 25 فیصد کوٹہ خواتین کے لیے مختص کیا گیا ہے، جب کہ ایک سے 5 لاکھ تک قرض 6 فیصد اور پانچ سے 50 لاکھ 8 فیصد شرح سود پر فراہم کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ، ماضی میں بھی نوجوانوں کی بہتری کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے لیکن خاطر خواہ نتائج بر آمد نہ ہوئے، کیا یہ پروگرام ماضی کے مختلف منصوبوں سے مختلف اور موثر ہے، کہیں ہمارے نوجوان اس آسان قرضہ اسکیم کی زد میں آکر قرضے تلے تو نہیں دب جائیں گے، یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اس منصوبے کے تحت اصل حقدار کو اس کا حق ملے گا یا نہیں؟، کیا دس لاکھ نوجوانوں کے لیے مخصوص بجٹ کافی ہے؟ اس پروگرام کی شفافیت کے لیے کیا اقدامات کئے جانے چاہیں اور اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں نوجوانوں کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ اس حوالے سے ہم نے چند اساتذہ، طلباء اور نوجوانوں کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔ وہ اس پروگرام کو کس طرح دیکھتے، اس حوالے سے کیا کہتے اور سوچتے ہیں؟ آئیے آپ بھی جانیے۔
٭… پروفیسر محمد علی شیخ، سندھ مدرسۃ السلام کے وائس چانسلر ہیں۔ ’’کامیاب جوان پروگرام‘‘ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ، اس طرح کے پروگرام کا انعقاد ایک خوش آئند ہے۔ کیوں ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد صرف یہ ہی سوچ ہوتی ہے کہ انہیں کسی اچھے ادارے میں، اچھے عہدے پر ملازمت مل جائے اور اگر یہ موقع کسی حکومتی ادارے میں ہو تو بہت اچھا ہوگا۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ، نجی ادارے ہوں یا سرکاری، ہر سال کتنی آسامیاں خالی کریں گے، کیوں کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں نوجوان تعلیم مکمل کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں ’’کاروبار‘‘ کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو کاروبار کی جانب راغب کرنا ہے، جس سے وہ نہ صرف اپنے بلکہ دیگر افراد کی بیروزگاری کے مسائل کا موثر حل نکال سکیں گے۔ اس لیے باقائدہ منصوبہ بندی سے یہ پروگرام اور اس نوعیت کے دیگر پروگرامز کا انعقاد ہونا چاہئے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومتی سطح پر نوجوانوں کو سہولیات مہیا کی جائیں گی، ان کے لیے راستے بنائے جائیں۔ فی الوقت اس پروگرام کا اسٹرکچر بالکل غیر نمایاں ہے۔ صرف ایک سے پچاس لاکھ تک کے آسان شرائط پر کاروبار کے لیے قرضے فراہم کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ لیکن یہ قرضہ کس بنیاد پر، کس طرح کا، کاروبار کرنے کے لیے، کن نوجوانوں کو دیا جائے گا یہ واضح نہیں ہے۔ کسی بھی نوعیت اور درجے کا، کاروبار شروع کرنے کے لیے پیسہ صرف ایک جز ہے، کاروبار میں دیگر عوامل بھی شامل ہوتے ہیں جیسا کہ مارکیٹنگ، مینجمینٹ، فائنینشل مینجمینٹ، بجٹنگ، آرپرنشز وغیرہ مختلف شعبہ جات میں تعلیم مکمل کرنے والا ہر نوجوان بزنس کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتا ہر کسی میں انٹرپرنئر شپ کی صلاحیت نہیں ہوسکتی، ایسے میں نوجوانوں کی کامیابی کا تناسب کم اور ناکامی کا بڑھ جائے گا۔ یہ منصوبہ اس وقت ’’پالیسی‘‘ کی حد تک ٹھیک ہے، یعنی پالیسی سے مراد راستے کا تعین ہے کہ حکومت کس راستے پر چل کر نوجوانوں کے مسائل حل کرے گی، لیکن اسے باقائدہ اسٹرکچر دینے کی ضرورت ہے تب ہی اسے ’’پروگرام‘‘ کہا جائے گا۔ حکومت کو قرضہ دینے سے زیادہ ہنر سکھانے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کے مختلف شعبہ جات بالخصوص آئی ٹی کے حوالے سے ’’اسکل فل‘‘ کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ جب نوجوانوں کے پاس ہنر ہوگا تب ہی وہ کسی بھی قسم کا کامیاب کاروبار کرسکیں گے۔ اس پروگرام کی کامیابی کے لیے حکومت کو ایسے ادارے بھی بنانے چاہیں، جو نوجوانوں کی قدم قدم پر رہنمائی کریں۔ مثلاً، کاروبار کے فلاں کام کے لیے فلاں ادارے سے اجازت لینا ضروری ہے، فلاں جگہ سے این او سی حاصل کرنا ہے تاکہ اُنہیں کسی قسم کی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ دیگر مسائل میں الجھ کر نہ رہ جائیں اور اپنی تمام تر توجہ و توانائی صرف کاروبار کو چلانے میں صرف کریں، ورنہ اس پروگرام کا حال بھی ماضی کے منصوبوں کی طرح ہوگا، جیسے کبھی بنا سوچے سمجھے لیپ ٹاپ بانٹ دیئے گئے تو کبھی ’’یلو کیپ‘‘ کے نام پر ہزاروں پیلی ٹیکسیاں سڑکوں پر نکال دی گئیں، جس سے بے روزگاری تو دور نہ ہوئی بلکہ ٹریفک کے مسائل درپیش ہوگئے۔ پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں کے باعث ہزاروں افراد نے وہ ٹیکسیاں واپس کردیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ، ماضی کے پروگراموں کی طرح یہ بھی آدھا بناہوا ہے۔ دنیا بھر میں جب بھی اس نوعیت کے پروگرام بنتے ہیں تو ملک کی تمام جامعات کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جاتا ہے، اساتذہ سے مدد لی جاتی ہے، مختلف شعبہ جات کے ماہرین کی رائے سامنے رکھی جاتی ہے ہر زاویے سے سوچا جاتا ہے، لیکن یہ چیز تکلیف دہ ہے کہ ہمارے یہاں ماہرین تو موجود ہیں اس کے باوجود تمام معاملات بیوروکریسی کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں، جنہیں اس قسم کے تجربات نہیں ہوتے۔
کامیاب جوان پروگرام کے بجٹ کے حوالے سے پروفیسر محمد علی کا کہنا تھا کہ، حکومت چاہے کتنا بھی بجٹ رکھے، لیکن اگر اسٹرکچر ٹھیک نہیں ہوگا تو اس کا بھی وہی حال ہوگا جو ملک کا ہوا ہے۔ نوجوان قرضوں تلے دب کے رہ جائیں گے۔ صرف بڑا بجٹ مختص کرکے حکومت کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت جامع حکمت عملی بھی بنائے، سروس انڈسٹری سے نکل کر مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی جانب آئے۔ ہمیں مختلف علاقہ جات کے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے چھوٹی چھوٹی صنعتیں لگانے کی ضرورت ہے، ملک اسی وقت ترقی کرے گا، جب ہماری برآمد بڑھے گی۔ جب ہم نوجوانوں کو صحیح تعلیم، سہولیات، منصوبے، ہنر، ماحول وغیرہ مہیا کریں گے، تب ہی ان سے امید کر سکتے ہیں کہ وہ کوئی آوٹ پٹ دیں گے۔ جب یہ منصوبہ ویل اسٹرکچر ہوگا تب ہی نوجوان کامیاب کاروبار کرکے ملک سے بے روزگاری ختم کرنے کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں گے۔
٭… ڈاکٹر پروفیسر فتح محمد برفت، سندھ یونیورسٹی جامشورو کے وائس چانسلر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ، ملک کی نصف سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، اور ان پر انویسٹمنٹ کرنا حکومت کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہوگا، تب ہی نوجوان ترقی کرسکیں گے۔ قرضے فراہم کرنے سے بہتر ہے کہ حکومت انہیں معیاری تعلیم فراہم کرے، کیوں کہ معیاری تعلیم کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ کاروبار کرنا آسان نہیں ہے۔ لیکن تعلیم و شعور ہوگا تو ہی نوجوان کسی قسم کا کاروبار کرسکیں گے، طویل مدت پالیساں بنانے کے لیے درست فیصلے کریں گے اور نفع نقصان بہتر انداز میں سمجھ سکیں گے۔
ڈاکٹر برفت نے پھر کہا کہ، آج مقابلہ سخت ہوگیا ہے، ایسی صورت میں جہاں سہولیات کا فقدان ہو، جھوٹ، فریب کے ماحول میں بھروسے کی کمی کا سامنا ہو اور بجٹ محدود ہو، تو کامیاب کاروبار کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ اس طرح ناتجربہ کار نوجوانوں کے لیے نقصان کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ انہیں مچھلی نہ دیں بلکہ انہیں مچھلی پکڑنا سکھائیں۔ انہیں مقروض کرنے سے بہتر ہے کہ ہنر سکھائیں۔ دنیا بھر میں اسی قسم کی پالیساں بنائی جاتی ہیں جہاں وہ اپنے نوجوانوں کو ہنر سکھاتے ہیں۔ ملائشیا کو دیکھ لیں یا جنوبی کوریا کو، وہ جانتے ہیں کہ ہنرمند انسان بھوکا نہیں رہتا۔ آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے، نوجوانوں کو آئی ٹی کی طرف راغب کرنا ضروری ہے گو کہ ہمارے نوجوانوں میں پہلے سے زیادہ شعور آگیا ہے وہ ٹیکنالوجی کو بہتر سمجھتے ہیں لیکن آج بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو سوشل میڈیا کے استعمال کو ہی ٹیکنالوجی کا اصل استعمال سمجھتے ہیں، جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے آج فری لانسنگ کے ذریعے نوجوان گھر بیٹھے پیسے کما کر لگی بندھی ملازمت کے بغیر بے روزگاری کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو ایک دوسرے سے منسلک کرکے پورے ملک میں یکساں تعلیمی نظام کو یقینی بنائیں، کاروبار صرف پیسے سے نہیں ہوتا، دیگر بنیادی چیزوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے عملی تربیت دینا ضروری ہے۔ حالیہ بجٹ میں تعلیمی بجٹ میں کٹوٹی ایک افسوس ناک فیصلہ ہے، تعلیم کے بجائے قرضوں پر پیسہ خرچ کرنا سمجھداری نہیں ہے۔ نسل نو کو مقرض بنانے کی بجائے تربیت فراہم کریں، ہنرمند بنائیں تاکہ وہ باآسانی کاروبار کرسکیں۔ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جو قدرتی وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ لیکن وہ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں جب کہ ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل موجود ہیں، لیکن ہم اس سے فائدہ حاصل نہیں کرتے۔ چین اور جاپان کی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں جنہوں نے قدرتی وسائل کے بجائے انسانی وسائل سے فائدہ حاصل کیا ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں نظم و ضبط کی کمی ہے، نہ وہ محنت کش ہیں اور نہ ہی ایمان دار ہیں، جو کہ بنیادی تربیت و معیاری تعلیم کا حصہ ہیں یہ پیسے سے حاصل نہیں ہوتیں۔ نظم و ضبط، محنت کش، ایمان داری؛ جن نوجوان میں یہ تینوں خوبیوں ہوں گی، وہ ہی زندگی میں کامیاب ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں کوٹہ سسٹم کو ختم کرکے میرٹ سسٹم کو ترجیح دینا ہوگی تب ہی ہم ترقی کریں گے۔
نوجوان کے کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ، انہیں چاہئے جو بھی کام کریں اسے عبادت سمجھ کر کریں تو ہی کامیاب رہیں گے، چاہے تعلیم حاصل کرنا ہو، ملازمت یا کاروبار کرنا ہو۔ ہمارے ارد گرد بے شمار مثالیں موجود ہیں جنہوں نے خالی ہاتھ کاروبار شروع کیا اور وہ آج کامیاب ہیں۔
ماضی میں بھی اس نوعیت کے پروگرام تشکیل پاتے رہے ہیں، جس کا نتیجہ صفر رہا ہے۔ اس پروگرام کی کامیابی کا انحصار نظام کی شفافیت پر رہے، پہلے بھی کئی منصوبے بنے لیکن سیاست، اقراباپروی، تعلقات کے باعث ناکام ہوگئے، اسے سیاست سے بالا تر، صرف میرٹ کی بنیاد پر رکھا جائے۔ اس منصوبے میں سیاسی لوگوں کی جبائے اساتذہ، میڈیا اور قانون سے وابستہ لوگوں کو شامل کیا جائے۔
اس کا بجٹ بہت بڑا رکھا گیا ہے، سوچنے والی بات ہے حکومت کے پاس تعلیم اور صیحت جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں لیکن اس طرح کے پروگرامز کے لیے ہے۔ اگر بنیادی سہولیات پر ایمانداری سے توجہ دی جائے تو اس طرح کی اسکیموں پر پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
٭… پروفیسر ہارون رشید، ماہر تعلیم اور سابق ڈائرکٹر کالجز کراچی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، حکومت کے اس اقدام کو سرہانہ چاہیے، نوجوانوں کے لیے نیک نیتی سے جو بھی کوشش کی جائے وہ فائدہ مند ہوگی۔ ایک جانب ہمارے پاس پڑھے لکھے بےروزگار نوجوانوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ تو دوسری جانب اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ملکی حالات سے مایوس اور دلبرداشتہ ہوکر بیرون ملک قسمت آزمانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بیرون ملک جاکر ہر وہ کام کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں، جسے اپنے ملک میں کرنے کا تصور تک نہیں کرتے۔ اگر یہ عمل نا خواندہ افراد کر رہے ہوتے تو شاید معملات اس قدر سنگین نہ ہوتے، کیونکہ دنیا بھر میں غیر مقامی لیبر فورس موجود ہے، لیکن فکر طلب پہلو یہ ہی ہے کہ، اِس کی زد میں ہمارے پڑھے لکھے مایوس نوجوان آچکے ہیں۔ ایسی صورت حال میں حکومت کا یہ اقدام کسی امید کی کرن سے کم نہیں ہے۔ یہ نوجوان بہتر مواقعے ملنے پر ملکی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
کسی منصوبے کی شروعات اس بات کی یقین دہانی ہے کہ اگلا قدم بھی اُٹھے گا۔ ہر عمل کا منفی پہلو دیکھنے کی بجائے اس کے مثبت پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ اس سرمایے کو ضائع کرنے کی بجائے اس سے بھرپور فائدہ حاصل کریں۔ نسل نو اس قدر باصلاحیت ہے کہ اگر وہ اپنے اندر یقین و اعتماد بحال کر لے تو انہیں کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے نوجوان بھیڑچال کی زد میں ہیں۔ وہ ملازمت سے آگے سوچتے ہی نہیں ہیں۔ اس منصوبے کی مدد سے انہیں کاروبار کی جانب راغب کیا جاسکے گا، جو ایک خوش آئند عمل ہے۔ انہیں مارکیٹ میں فری ہینڈ دینا چایئے، قرضے فراہم کرنے کے ساتھ ان کی بزنس کونسلنگ بھی ہونی چاہیے۔ ایسے اقدامات کریں کہ یہ چھوٹی صنعتوں کی جانب آئیں۔ شارٹ ٹرم پالیسی سے بہتر ہے کہ طویل مدت منصوبہ بندی کی جائے یہ ہی کامیابی کی ضامن ہے۔ ہمیں منفی امکانات سے ڈر کر روکنا نہیں چاہئے بلکہ حالات کا ڈٹ کرمقابلہ کرنا چاہئے۔ مختلف اور تجربہ کار صنعت کاروں کو آگے آکر نوجوانوں کو آگاہی فراہم کرنا چاہے تاکہ ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو، کیوں کہ جو قومیں تجارت کرتی ہیں وہی کامیاب ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنی انا ختم کرنی ہوگی، اور اسکل لیبر کے طور پر کام کرنا ہوگا کیوں کہ کوئی بھی کاروبار چھوٹا نہیں ہوتا، اگر چھوٹے پیمانے پر، کسی گلی محلے میں بھی کاروبار کرنا پڑے تو کریں۔
اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے نوجوانوں کا کردار مثبت طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ جامعات اور کالجز میں مذاکرے کروائے جائیں۔ نوجوانوں کی بلا معاوضہ ٹرینگ کروائی جائے، تاکہ ان میں کاروبار کی سمجھ بوجھ اُجاگر ہوسکے، جب کہ اس کی شفافیت کوحوالے سے ان کی رائے ہے کہ، اگر منظم منصوبہ بندی نہیں کی گئی تو قرضے چوری بھی ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے، کئی پالیسیاں ناکام ہوئی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہفتہ وار بنیادوں پر ان کی مانیٹرنگ کی جائے۔
٭… پرنسپل ڈی جے کالج، شہزاد محمد خان کے خیال میں اس طرح کے پروگرام ہونے چاہیں، لیکن اس سے بہتر ہے کہ نوجوانوں کو ووکیشنل ٹریننگ دی جائے۔ پیسے مہیا کرنے سے زیادہ نوجوانوں کو ہنر کی ضرورت ہے۔ اس بات کی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے کہ انہیں یہ قرضے کس بنیاد پر اور کس سیکٹر کے لیے دیئے جا رہے ہیں۔ جو سیکٹر کمزور ہیں انہیں مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ میری نظر میں جس طالب علم کے پاس ٹیکنیکل تعلیم ہے اسے قرضے فراہم کیئے جانے چاہیں کیوں کہ وہ ہی انڈسٹری چلانے کا گُر جانتا ہے۔ لیکن تاحال اس پروگرام کے خد و خال واضح نہیں ہیں اس لیے ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ ہاں البتہ اگر یہ صرف قرضے دینے تک محدود ہے تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے بہتر نوجوانوں کے لیے حکومتی سطح پر ووکیشنل ٹریننگ کے مواقعے پیدا کئے جائیں، جس کی بنیاد پر نوجوان چاہیں تو ملازمت کریں یا پھر اپنا کاروبار۔ جہاں تک بات قرضے فراہم کرنے کی ہے تو ہمارا ملک پہلے ہی قرض دار ہے، اس پر مزید ایک اور نیا قرضہ…، کوشش یہ ہی ہونی چاہئے کہ ووکیشنل ٹریننگ کا تجربہ رکھنے والوں کو قرضے فراہم کیے جائیں یا جنہیں قرضے دیئے جا رہے ہیں انہیں اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ دیگر افراد کی بے روز گاری کے مسائل حل کریں گے۔ انہیں کم سے کم 3 افراد کو ملازمتیں مہیا کرنے پر پابند کیا جائے۔ ماضی میں بغیر منصوبہ بندی کے کئی پروگرام، پیلی ٹیکسی، بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام، لیپ ٹاپ اسکیم وغیرہ شروع کیے گئے جنہیں بعدازاں کسی نہ کسی سبب ختم کرنا پڑا یا اگلی آنے والی حکومتیں انہیں برقرار نہیں رکھ سکیں۔ لانگ ٹرم پالیسی کے تحت منصوبے بنانے چایئے تاکہ نوجوان بہتر حکمت عملی کے ساتھ ان سے مستفد ہوسکے۔ چیک اینڈ بیلنس رکھنا بہت ضروری ہے، جو حال پیلی ٹیکسی منصوبے کے بعد شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا ہوا، وہ نہیں ہونا چاہیے۔ تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی حکمت عملی تیار کی جانی چاہئے جس سے ناکامی کے امکان کم ہو جائیں۔ ایک اہم بات یہ کہ، نوجوانوں کو اپنے ذہنوں کو بدلنے کی ضرورت ہے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت حاصل کرنے کے رجحان کو بدلنا ہوگا۔ انہیں یہ باور کرانا ہوگا کہ کاروبار ملازمت سے بہتر ہے۔ ملازمت لینے کے بجائے دینے والے بنیں کیوں کہ دینے والا ہاتھ ہمیشہ اوپر ہوتا ہے۔ اگر انہیں کاروبار کا موقع مل رہا ہے تو کاٹیچ انڈسٹری لگانی چاہئے، جس سے ملک کی برآمد بڑھے گی۔ اس سے نہ صرف نوجوان ترقی کریں گے بلکہ ملک بھی ترقی کرے گا۔
اس پروگرام کو شفاف بنانے کے لیے لوکل باڈیز کا سہارا لینا چاہئے۔ علاقے کے پولیس اسٹیشنز، کونسلرز، محلے کے عالم دین، یونیورسٹیز وغیرہ سے ریکارڈ طلب کرنے کو یقینی بنائیں تاکہ جسے قرضہ فراہم کیا جارہا ہے اس کے کردار، اس کی ضروریات اور اس کی قابلیت کے حوالے سے تمام دستاویزات موجود ہوں تاکہ حکومت کی جانب سے وقت ضرورت باآسانی قرضہ وصول کیا جاسکے۔ دوسری جانب قرضہ فراہم کرنے کے لیے بیوروکرسی کی بجائے بینک سے خدمات حاصل کرنی چاہیے۔
٭… ڈاکٹر آزادی فتح، وفاقی اردو یونیورسٹی برائے آرٹ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں اسیسٹینڈ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، اس منصوبے کو انٹرپرئنرشپ کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہے جو کہ ایک اچھا عمل ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی اسی طرز کے پروگرامز نوجوانوں، خواتین، اقلیتوں کے لیے متعارف کروا کے انہیں مستحکم بنایا گیا ہے۔ جس کی بہترین مثال بنگلہ دیش میں متعارف کروائی جانے والی گرامن بینکنگ کی ہے۔ ملازمت سے زیادہ بہتر کاروبار ہے جو فرد واحد کی بجائے پورے معاشرے کو ساتھ لے کر آگے چلتا ہے، جس سے ملک کے ترقی کرنے کے مواقعے بڑھ جاتے ہیں، جس طرح اس کا اعلان کیا گیا ہے اگر اسی طرح اس پر عمل درآمد بھی کیا جائے تو بہت خوش آئند بات ہے۔۔
کاروبار کے ساتھ رسک فیکٹر تو رہتا ہی ہے، لیکن انہیں سنجیدگی سے حل کیا جاسکتا ہے۔ حکومتی سطح شروع ہونے والے منصوبوں میں خطرہ اس لیے بھی بڑھ جاتا ہے کہ حکومت کا کوئی بھروسہ نہیں آج ہے کل نہیں اور پھر اگلی حکومت پرانے منصوبوں کو ختم کردے، جیسا کہ ہوتا آٰیا ہے۔ جب ترقیاتی منصوبوں کو مقرہ وقت نہیں ملے گا، تو اس کے نتائج سامنے نہیں آسکیں گے۔ ہمارے نوجوان بہت محنتی اور باصلاحیت ہیں، باشعور ہیں، وہ اچھا، برا جانتے ہیں اور جن نوجوانوں کو کاروبار کی سمجھ بوجھ نہیں ہے انہیں اس پروگرام کے تحت بزنس ٹرینگ دینی چاہئے۔ اس کے علاوہ سماجی کارکن، اساتذہ اور وہ افراد جو پہلے سے مختلف سطح پر کامیاب کاروبار چلا رہے ہیں وہ بھی رضاکارانہ طور پر اپنے تجربات کی روشنی میں انہیں آگاہی فراہم کرسکتے ہیں، بتاسکتے ہیں کہ وہ اپنے ہنر اور صلاحیتوں کو بروکار لاکر کس طرح کاروبار کرسکتے ہیں۔
ہمیں ماضی کے مختلف ناکام منصوبوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے ہمارے سسٹم میں موجود بنیادی خرابیوں جیسے کرپشن، کوٹہ سسٹم، اقراباپروی وغیرہ کو ختم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ایک سسٹامیٹک پروگرام ہونا چاہئے کہ جس کے تحت فیصلہ کیا جائے کہ کس کو قرضہ دینا چاہئے اور کس کو نہیں۔ دوسری جانب نوجوانوں کو بھی چاہئے کہ وہ ایمان داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس مقصد کے لیے قرضہ لے رہے ہیں اسے وہیں خرچ کریں۔ سفارشات کی بنیاد پر قرضہ منظور کروانے کی بجائے میرٹ پر اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر قرضہ لیں اور جلد سے جلد قرضہ واپس کریں تاکہ ملک و قوم کا نقصان نہ ہو۔
کامیاب جوان پروگرام پر چند نوجوانوں کی آراء
جہاں اس پروگرام میں اساتذہ کی رائے اہمیت کی حامل ہے وہیں نوجوان طالب علموں کا نظریہ بھی جاننا ضروری ہے جن کے لیے یہ منصوبہ تشکیل دیا جا رہا ہے وہ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں اور مستقبل سے کس حد تک پُرامید ہیں۔
٭… ابیرہ منیر، نجی جامعہ میں سوفٹ وئیر انجینیر کی طالبہ اور قومی تیر انداز کھلاڑی ہیں۔ وہ حکومت کے نوجوان پروگرام سے پُرامید ہیں ان کا کہنا ہے کہ، اس اقدام سے نوجوانوں کے مالی مسائل کا حل نکل سکے گا۔ وہ نوجوان اس منصوبے سے مستفید ہوسکیں گے، جو ملازمت نہ ملنے سے پریشان ہیں۔ ان کے لیے اپنا کاروبار، اندھیرے میں امید کی کرن سے کم نہیں ہوگا۔ اب وہ حکومتی سطح پر آسان شرائط پر قرضہ حاصل کرکے نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں گے بلکہ، ملک و قوم کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرسکیں گے، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ایمان داری سے کڑی محنت کریں کیوں کہ کوئی بھی کاروبار اسی وقت کامیاب ہوتا ہے، جب دن رات محنت کی جائے۔
٭… عرونہ عزم خان، نجی جامعہ میں مائیکروبیالوجی سے بی ایس کر رہی ہیں۔ نوجوان پروگرام کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ، وہ تمام نوجوان جن کے پاس کاروبار کے لیے آئیڈیا تو ہے لیکن مالی وسائل کی کمی کا شکار ہیں، اب وہ حکومتی سطح پر آسان شرائط پر قرضہ حاصل کرکے اپنی خود داری برقرار رکھتے ہوئے نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں گے بلکہ، ملک و قوم کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔ جب کبھی نیا کاروبار شروع کرتے ہیں تو محنت، لگن اور ایمان داری کے ساتھ سمجھداری سے بھی کام لینا چاہئے۔ کوئی بھی فیصلہ بناسوچے سمجھے نہیں کرنا چاہیے اور ہر چیز کا دستاویزی ثبوت رکھنا چاہیے تاکہ آپ کو کبھی کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ساتھ ہی جس حوالے سے کاروبار شروع کریں، اس کی مکمل معلومات کا ہونا بھی ضروری ہے۔
٭… دریا خان، سافٹ وئیر انجینیرنگ کی تعلیم حاصؒل کر رہے ہیں اور قومی سطح پر تائیکونڈو کے کھلاڑی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، صرف پیسوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ جب بھی کوئی کاروبار شروع کرتے ہیں، تو اس حوالے سے مکمل معلومات اور ہنر کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ آپ کے پاس ایک اچھا آئیڈیا ہونا ضروری ہے۔ جس کے بغیر کاروبار نہیں چل سکتا، چاہئے کتنا بھی قرضہ فراہم کردیا جائے۔ دوسری جانب بغیر کسی تجربے کے کوئی بھی کاروبار کامیاب ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ لیکن اگر اس حوالے سے مکمل معلومات ہیں تو تجربے کے بغیر بھی کامیابی مل سکتی ہیں لیکن اس میں کچھ وقت درکار ہوگا، جس کے لیے مستقل مزاجی کی اشد ضرورت ہوگی۔ جہاں تک بات کامیاب جوان پروگرام کی کامیابی کی ہے، تو یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے نوجوان بالخصوص بےروزگار افراد کو اس حوالے سے مکمل آگاہی ہوگی، تب ہی وہ اس سے فائدہ اُٹھا سکیں گے۔