• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سات دہائیوں سے بین الاقوامی طور پر متنازع تسلیم کی جانے والی کشمیر کی سرزمین پر اپنے ناجائز قبضے کو مستقل آئینی حیثیت دینے کے بھارتی اقدام اور پھر اس کھلی دھاندلی پر سراپا احتجاج بن جانے والے ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کی آواز کو دبانے کیلئے مظلوم وادی میں نو لاکھ فوج کے علاوہ ہزاروں آر ایس ایس غنڈوں اور بدمعاشوں کی اضافی نفری کے ذریعے جبر و تشدد کے نئے دور کے آغاز کے بعد مودی سرکار کی ریاستی دہشت گردی کو روکنے کیلئے تنازع کشمیر کے مسلمہ فریق اور کشمیریوں کے حق خودارادی کے علمبردار کی حیثیت سے پاکستان کی جانب سے عالمی برادری کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کرنے پر آمادہ کرنا وقت کا ناگزیر تقاضا تھا۔ لہٰذا حکومت پاکستان نے اس مقصد کیلئے بھرپور جدوجہد کی، عالمی سطح پر تیز رفتار رابطے کیے اور اس کے نتیجہ میں گزشتہ روز پچاس سال بعد کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے بند کمرے میں ہونے والے ابتدائی مشاورتی اجلاس میں زیر غور آیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی مخدوش صورتحال پر عالمی ادارے کا اجلاس بلانے کیلئے کونسل کے صدر کو خط لکھا تھا جبکہ پاکستان کے آزمودہ دوست اور عظیم ہمسائے عوامی جمہوریہ چین نے اس کوشش کو کامیاب بنانے میں نتیجہ خیز کردار ادا کیا۔ اجلاس کے بعد اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب ژینگ جون نے میڈیا سے گفتگو میں اس حقیقت کو واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی طور پرتسلیم شدہ تنازع ہے جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کے مطابق پُرامن طور پر حل کیا جانا چاہئے۔ ان کا موقف تھا کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے خطے میں سخت کشیدگی پیدا ہوئی ہے جبکہ بھارتی اقدام چین کی اپنی خودمختاری کیلئے بھی چیلنج ہے۔ سلامتی کونسل کے ابتدائی اجلاس کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں بجا طور پر دعویٰ کیا کہ بھارتی اقدام کے بعد سلامتی کونسل کے اجلاس سے ثابت ہوگیا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں، دنیا کے سب سے اعلیٰ بین الاقوامی فورم پر پچاس سال بعد کشمیریوں کی آواز کا سنا جانا بڑی کامیابی ہے اور اس اجلاس نے مودی سرکار کے اکھنڈ بھارت کے دعووں کو مسترد کردیا ہے، نیز اس سے تنازع کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی ایک بار پھر توثیق ہوگئی ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے جاری رہنے والے پانچ بڑی عالمی طاقتوں کے اس مشاورتی اجلاس کے بعد کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا اور چینی مندوب کے سوا کسی اور ملک کے نمائندے نے میڈیا سے بات چیت بھی نہیں کی؛ تاہم چینی مندوب نے یہ ضرور بتایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تمام ارکان نے تشویش کا اظہار کیا۔ امریکی صدر نے بھی وزیراعظم پاکستان سے ٹیلی فون پر گزشتہ روز ہونے والی بات چیت میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر فکر مندی ظاہر کی ہے اور اسلامی تعاون تنظیم نے بھی کشمیر میں مظالم کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت کے یکطرفہ اور صریحاً ناجائز اقدام کے بعد کشمیر میں رونما ہونے والی صورتحال جس وجہ سے خاص طور پر عالمی برادری کی توجہ کی طالب ہے، وہ یہ ہے کہ اس تنازع کے دونوں فریق مسلمہ ایٹمی طاقت ہیں جبکہ شدید تناؤ کے باوجود بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے گزشتہ روز بدترین جنگی جنون کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعلان کرکے کہ ان کا ملک ایٹمی حملے میں پہل نہ کرنے کے اصول پر حالات کے تقاضوں کے تحت نظر ثانی کر سکتا ہے، عالمی امن کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کیونکہ ایٹمی طاقتوں کی جنگ کا مطلب محض ان ملکوں کی تباہی نہیں ہوگا جو اس میں ملوث ہوں بلکہ اس کے تباہ کن نتائج لازماً پوری دنیا کو بھگتنا ہوں گے۔ اس لیے تنازع کشمیر کا کشمیریوں کی مرضی کے مطابق تصفیہ دنیا کو تباہی سے محفوظ رکھنے کیلئے بہرصورت ضروری ہے، سلامتی کونسل کے ارکان کو اپنے فیصلوں میں اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر دنیا کا امن مستقلاً خطرے میں رہے گا۔

تازہ ترین