• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنت نظیر کشمیر حضرت علامہ اقبال کا آبائی وطن ہے، اس اٹوٹ رشتے کے باوصف کشمیر آپ کے من میں ہمیشہ تازہ رہا اور تخیل ہر ساعت اس کی محبت کے گیت بُنتا رہا۔ وہ اول تا آخر کشمیریوں کی ہر جدوجہد کے راہبر و رہنما تھے۔ حساس طبعیت تو اُن کی شخصیت کا حُسن سمیٹے ہوئی تھی ہی لیکن کشمیر سے متعلق اُن کی حساسیت کا پیمانہ لبِ جام تھا۔ یہاں تک کہ وہ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی سے متعلق چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی کو پہاڑ سمجھتے۔ 1907میں جموں میں انجمن کشمیریاں جموں کے نام سے ایک تنظیم معرض وجود میں آئی تھی لیکن اس کے عہدیداروں اور چند برگزیدہ کارکنوں کی باہمی رسہ کشی اور رقابت کی وجہ سے اس کا شیرازہ بکھر گیا۔ حضرت اقبال کو اس قدر ملال ہوا کہ انہوں نے ’’ کشمیری میگزین‘‘ کے ستمبر 1909ء کے شمارہ میں’’ انجمن کشمیریان جموں کا حشر‘‘ کے عنوان سے ایک جذبات پرور شذرہ قلمبند کیا جس کی ابتدا انہوں نے ایک نہایت ہی پُر اثر شعر سے کی۔

ایک وہ ہیں کہ نیا رنگ جما لیتے ہیں

ایک ہم ہیں کہ بنا کر بھی مٹا لیتے ہیں

یہ طالبعلم گزشتہ شب سوچ رہا تھا کہ آج اگر حضرت حیات ہوتے تو نجانے کشمیر کے المناک سانحہ پر زندہ بھی رہ پاتے یا نہیں! 1936ء میں کشمیر کے حریت پسند جب بڑی بےجگری سے ڈوگرہ راج سے ٹکرا گئے تو سرکار نے نت نئے مظالم آزمائے، اس صورتحال کی وجہ سے بعض سرکردہ رہنما جلا وطن ہوئے جن میں مولانا محمد سعید مسعودی اور مولانا احمد اللہ میر واعظ ہمدانی بھی شامل تھے۔ ایک موقع پر جب یہ دونوں جلاوطن رہنما حضرت سے لاہور میں ملے تو دوران گفتگو حضرت کا لہجہ جلالی ہوگیا اور انہیں مخاطب کر کے فرمایا ’’آزادیٔ وطن کے طلبگار مجاہد کے لئے یہ کس قدر سعادت ہوتی کہ وہ بجائے جلاوطن ہونے کے اپنی سر زمین پر جام شہادت نوش کرتا‘‘۔ یہ احقر گزشتہ شب یہ بھی سوچتا رہا کہ حضرت آج اگر ہم میں موجو د ہوتے تو کیا وہ ہم سے بھی ’’جامِ شہادت‘‘ کی اُمید لگا پاتے یا بقول میرزا یاس یگانہ بس یہی کہتے رہ جاتے۔

بے دلوں کی ہستی کیا، جیتے ہیں نہ مرتے ہیں

خواب ہے نہ بیداری، ہوش ہے نہ مستی ہے

کوئی لاکھ انکار کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 72سال ہمارے جامِ حیات میں نہ تو بیداری لاسکے اور نہ ہی مستی۔ بیداری ہوتی تو ہم ہندو بنئے کی پے درپے دغا بازیوں سے کیونکر غافل رہتے، بھارت اس حوالے سے سیاہ تاریخ لئے ہوئے ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ 22اکتوبر 1947 کو جب کشمیریوں نے اپنے زورِ بازو سے ایک حصے کو آزاد کرا لیا تو اس واقعہ کو برطانیہ نے کشمیر پر حملہ قرار دیا۔ اس سلسلے میں لارڈ مائونٹ بیٹن کے سیکرٹری جانسن نے اپنی کتاب Mission with Mount Battenمیں لکھا ہے ’’لارڈ مائونٹ بیٹن، جواہر لعل نہرو کی دعوت میں شریک تھے جہاں کشمیری مجاہدین کے حملے کی اطلاع ملی تو فوری اگلے روز اجلاس ہوا جس میں کہا گیا کہ یہ حملہ چونکہ پاکستان کی منشا کے تحت ہوا ہے، اس لئے مہاراجہ اگر چاہے تو ہندوستان اس کی مدد کرے گا مگر شرط یہ ہوگی کہ ایسی صورت میں مہاراجہ کو ہندوستان کے ساتھ عارضی الحاق کرنا ہوگا۔ برطانوی نمائندوں کا اصرار تھا کہ حالات معمول پر آنے کے بعد عبوری حکومت کے تحت ریاستی عوام کی جو آرا ہوگی، اسی کے مطابق الحاق کا حتمی فیصلہ ہوگا۔ چنانچہ ریاستوں کے سیکرٹری وی پی مینن کے توسط سے اس فیصلے پر عملدرآمد یوں کیا گیا کہ 27اکتوبر 1947کو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دیں‘‘۔

بھارت اس مسئلے کو 13اگست 1948ء کو اقوام متحدہ میں لے گیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے اقدامات کرتا رہا، یہاں تک کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے پر تیار نہ ہوا۔ اس صورت حال میں شملہ معاہدہ قطعی غیر ضروری تھا، جس میں تمام مسائل دو طرفہ مذکرات سے حل کا طے ہوا ہے۔ اس موقع پر سلامتی کونسل کی قرادوں پر عمل درآمد ہی اصل تقاضا تھا۔ معاہدوں سے بھارت کے مسلسل انحراف کے باوجود ہم بھارت کیخلاف کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب نہ کر سکے، یہی وہ تاریخی تساہل و کسالت ہے جس کے سبب ہم آج زندگی و موت کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ آہ! حضرت اقبال یاد آگئے۔ 1846ء کے رسوائے زمانہ ’’معاہدۂ امرتسر‘‘ کے تحت انگریز نے جب ریاست جموں و کشمیر کو راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ 75لاکھ نانک شاہی سِکوں میں فروخت کیا تو حضرت اقبال جبلِ غم تلے آگئے، مگر دامِ جبر کی پروا نہ کرتے ہوئے پکار اُٹھے۔

دہقان و کِشت و جُو و خیاباں فروختند

قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند

کسان، کھیتیاں، ندیاں اور گزر گاہیں بیچ دیں۔ پوری قوم کو بیچ دیا، اور کتنے سستے داموں بیچ دیا!!

تازہ ترین