لسانی فسادات پھر فرقہ وارانہ فسادات پھر ٹارگٹ کلنگ پھربھتے کی بھرمار ،نا دینے پر سیکڑوں لوگوں کو زندہ جلادینا پھر آئے دن ہڑتال ہفتہ میںپانچ دن شہر بند اور ایک یا دو دن کام جس کے نتیجے میں صنعتیں کراچی سے منتقل ہوکر ملک کے دوسرے شہروں میں لگ گئیں۔ یوں روزگار کے مواقع کم ہوگئے۔پھر شہر میں شہری حکومت کا وجود نمائشی رہ گیا اور شہر گندگی کا ڈھیر بنتاچلاگیا۔ کچرا،گندگی اٹھانے کا کوئی نظام نہ رکھا۔ حتیٰ کہ بڑے بڑے کچرا کنڈی کے ڈرم ہی شہر سے غائب ہوگئے۔ یوں عوام ندی نالوں، سڑک کے کنارے یا خالی پلاٹ پر کچرا پھینکنے لگی۔یوں مہینوں اور سالوں کچرا پڑا رہنے سے ملیریا تیزی سے پھیلتا رہا اور اس میں جدیدت آتی رہی ۔جس سے ڈینگی اور چکن گونیا جیسے امراض انسانی جانیں لینے لگے۔ لیکن کسی پر کوئی اثر نہیںہوا۔ وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عوام مررہی ہے تو کیا ہوا خواص کے لیے جان قربان کرنا ہی عوام کا کام ہے۔خواص کو کچھ نہیں ہونا چاہیئے۔ یہی کرتے کرتے قدرت نے ایک اور آزمائش لی کہ وہ شہر جہاں بچے بڑے ہوجاتے تھے مگر موسلادھار بارش سے ناواقف رہتےتھے۔ وہاں قدرت نےکئی روزباران رحمت نازل کی اور بڑی عید سے ایک دن پہلے تو ایسی بارش ہوئی کہ کراچی کے سارے ندی نالہ ابل پڑے ان نالوں پر آباد قابضین بھی ڈوب گئے۔ نتیجتاً ان ندی نالوں کے دباؤکی وجہ سے نالوں کا پانی الٹے دباؤکا شکار ہوا اور جگہ جگہ گلی کوچوں میں گٹرابلنے شروع ہوگئے۔ کیونکہ دو دن کی برسات کے بعد جب تین دن
تک قربانیاں کی گئیںاور ان کی آلائشیں اٹھانے کا مناسب بندوبست نہ ہوا تو جگہ جگہ آلائشوں کے ڈھیر جو اب سڑنا شروع ہوچکے ہیں ۔ایسے میں بواوربھبکے اور گٹروں کا ابلنا۔ یقیناً " ماحولیاتی آلودگی" میں چار چاند لگارہا ہے۔ کون کون سی بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور لیں گی؟ چھوٹے بچے مسلسل بخار کا شکار، مختلف جلدی بیماریاں اور سانس کی بیماریاں، سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں مریضوں کا اژدھام۔ لیکن وفاقی وزیر صاحب اپنی صفائی مہم (جو دوہفتے سے بڑھ کر لامحدود مددتک چلی گئی ہے) میں لوگوں سے تصویر کھینچ کے منگوارہے ہیں کہ آپ ہمیں کے یہاں گندی ہے ہم کچرا صاف کریں گے۔ جبکہ ان کی مہم میں شہری وصوبائی حکومتیں دونوں شامل ہیں۔ ایسے میں انہیں عوام سے تصویریں منگوانے کی کیا ضرورت؟ ہر علاقے کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سے دورہ کروائیں اور گٹر صاف کروائیں، نالوں کا کچرا جو نالے سے نکل کر کنارے پرپڑا ہے اس کو اٹھوائیں۔ کچرا ڈالنے کے بڑے بڑے کچرا دان (کچراکنڈی)ہر محلہ ہرگلی میں رکھیں اور دن میں تین سے چار مرتبہ وہ ڈرم خالی کروائیں اس کے بعد اگر کوئی سڑک یا گلی یا نالے میں کچراپھینکے اس پر جرمانہ عائد کریں۔ کیونکہ بہرحال کراچی کو گندہ کرنے میں لوگوں کا بھی بڑاہاتھ ہے۔لیکن نالوں کیصفائی اور نالوں کی زمین قبضہ مافیا سے واگزارکروانا بہت ضروری ہے۔ ورنہ یہ گٹروں کا ابلنا اسی طرح جاری رہے گا اور کوئی کچھ نہ کرسکے گا۔ جب کراچی کی اکثریت مختلف مہلک بیماریوں کا شکار ہوچکی ہوگی (خدانخواستہ) جب لوگ ہی نہ ہوں گے اور جو ہوں گے تو بیمار ہوں گے تو بیماروں اور لاغرلوگوں پہ حکمرانی کرنے کا کیا مزہ؟ غلام اور کنیزیں خدمت کے قابل ہی نہ ہوں تو بادشاہت کا کیا فائدہ؟ سوچنا آپ کو ہے کہ مریض رعایا چاہیئے یا تندرست!
minhajur.rab@janggroup.com.pk