پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار کا ایک سال اتوار کو مکمل ہو گیا، اس عرصے میں حکومت نے سخت مشکلات کے باوجود داخلی وخارجی محاذ پر جو سیاسی، معاشی اور سفارتی کامیابیاں حاصل کیں ان کا تفصیل سے اس کارکردگی رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے جو وزیراعظم سیکرٹریٹ میں منعقدہ تقریب میں جاری کی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے اس سال ملکی استحکام کی بنیاد رکھ دی، اگلا سال تعمیر و ترقی کا ہوگا۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی اوّلین ترجیح کشمیر ہے، ان کے نزدیک پاکستان کا وجود سب سے اہم ہے جو کشمیر کے بغیر نامکمل ہے۔ پچاس سال سے زائد عرصہ بعد مسئلہ کشمیر کا سلامتی کونسل میں پیش ہونا اور پانچ بڑی طاقتوں سمیت اس کے 15مستقل اور غیر مستقل ارکان کی جانب سے تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی حمایت یقیناً موجودہ حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ سیاسی اختلافات کے باوجود اپوزیشن نے بھی حکومت کے قومی بیانیے کا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر یہ مسئلہ اب حقیقی معنوں میں فلیش پوائنٹ بن گیا ہے۔ داخلی محاذ پر حکومت کی کامیابیاں گنواتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے عوام کی بہبود کیلئے کئے جانے والے بہت سے اقدامات کا ذکر کیا اور معاون خصوصی برائے سیاسی امور نعیم الحق نے بھی غریب طبقے خصوصاً دیہی آبادی کی اکثریت کی معاشی حالت بہتر بنانے کی اسکیموں پر روشنی ڈالی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت نے ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی مملکت کے نظام کا جو بیڑہ اٹھایا ہے اسے حقیقت کا روپ دینے کیلئے وسیع ادارہ جاتی اصلاحات متعارف کرائی گئیں یا کرائی جا رہی ہیں لیکن بعض معاشی اقدامات کے فوری نتائج عوام کی توقع کے مطابق نہیں نکلے جس سے ان میں مایوسی پیدا ہوئی اور اپوزیشن کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ حکومت اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد نہیں کرا سکی، اس کی کارکردگی مایوس کن ہے، بھوک، بیروزگاری اور مہنگائی بڑھ گئی ہے، پٹرول، گیس اور ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، روپے کی قیمت بہت زیادہ گری ہے، سونے کے نرخوں میں35 ہزار روپے فی تولے کا بلند ترین اضافہ ہوا ہے، چینی، آٹا، گھی، دالیں اور دیگر اشیا کے نرخ بھی غریب آدمی کی رسائی سے باہر ہو گئے ہیں۔ اپوزیشن معاملات کو اپنی نظر سے دیکھتی ہے جس کا اسے حق بھی ہے لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ حکومتوں کو مشکل حالات میں ہمیشہ مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں جن کے نتائج کیلئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کے موقف میں وزن ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ معاملات درست ہوتے جائیں گے اور ملک معاشی ابتری سے نکل کر خوشحالی کی طرف گامزن ہو جائے گا۔ لمحہ موجود میں پاکستان جہاں معاشی ابتری سے دوچار ہے وہاں کشمیر کے حوالے سے بھارت کے جارحانہ رویے کی بدولت اسے بیرونی خطرات بھی لاحق ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے عالمی میڈیا پہلی بار اس کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی کر رہا ہے جس کے مطابق چار ہزار سے زائد کشمیری لیڈر اور کارکن گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ مقبوضہ ریاست کی جیلیں کم پڑ گئی ہیں اور قیدیوں کو بھارتی جیلوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ بھارت نہ صرف اپنے مقبوضہ علاقے میں ظلم کا بازار گرم کئے ہوئے ہے بلکہ کنٹرول لائن پر بلااشتعال حملے کرکے آزاد کشمیر کی شہری آبادی کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم نے اپنے ایک ٹویٹ میں درست کہا کہ بھارت پر نازیوں جیسی فاشسٹ قیادت نے قبضہ کر لیا ہے، اس کے ایٹمی ہتھیار بھی اب محفوظ ہاتھوں میں نہیں۔ ایسی صورتحال میں دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا چاہئیں اور اقوام متحدہ کو مقبوضہ کشمیر میں اپنے مبصر بھیجنے چاہئیں درپیش داخلی مسائل اور خارجی خطرات سے نمٹنے کیلئے حکومت کو چاہئے کہ پارلیمنٹ کے توسط سے قوم کو حقائق سے باخبر رکھے، اپوزیشن کو اعتماد میں لے، قومی اتفاق رائے پیدا کرکے آگے بڑھے اور فروعی معاملات میں الجھے بغیر قومی ایکشن پلان مرتب کرے۔