• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے بڑے عالمی سفارتی فورم، سلامتی کونسل سے 50سال بعد پھر مقبوضہ کشمیر کے متنازع مسئلے کے حل طلب اور متعلقہ قراردادوں کے بدستور برقرار ہونے کی تصدیق کے بعد، ہندو بنیاد پرست مودی حکومت تو کھلے سفارتی میدان میں چت ہو گئی ہے۔ اس کے لئے تو اجلاس کا ہونا ہی بڑی شکست تھی، چہ جائیکہ اجلاس سے قبل ہی وزیراعظم عمران خاں کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس سے رابطے کے رسپانس میں عالمی ادارے کے ترجمان سٹیفن دو جارک کے ذریعے عالمی ادارے کا یہ واضح بیانیہ بھی آ گیا کہ ’’کشمیر کی حیثیت بدلنے سے گریز کیا جائے‘‘۔ (اصل میں یہ بھارت کو انتباہ ہے) انہوں نے مزید واضح کیا کہ ’’کشمیر پر ہمارا موقف اقوام متحدہ کا چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں، پاکستان اور بھارت شملہ سمجھوتے میں مسئلہ کا یو این او کے چارٹر کے مطابق حل نکالنے پر اتفاق کر چکے ہیں‘‘۔ اس سے قبل صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا چرچا پوری دنیا میں ہوا اور بقول امریکی صدر کے اس کی تجویز وزیراعظم مودی نے انہیں دی۔ بھارتی حکومت کے جھٹلانے کو وائٹ ہائوس اور صدر ٹرمپ کے مشیر نے لغو قرار دیا، یوں انہوں نے اپنے میڈیا کے سامنے دیئے گئے بیانیہ کو برقرار رکھا۔

مسئلہ کشمیر کا دو تین ہفتوں میں اس قدر انٹرنیشنلائز ہو جانے سے تو بھارت کی ہر حکومت ہی بدکتی رہی ہے، موجودہ بیمار الذہن قیادت اور اسے گھیرا ڈالے انتہا پسند ٹولہ تو اتنا مشتعل ہوا ہے کہ اس کا اشتعال وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے اس تشویشناک اور انتہا کے غیر ذمہ دارانہ بیان کی صورت میں ٹرانسلیٹ ہوا ہے کہ ’’بھارت ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر سکتا ہے‘‘۔ اس بیان کے بعد خود بھارت اور پاکستان کا میڈیا کے کرنٹ ایجنڈے میں ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں اور اس کے استعمال کی دونوں ممالک کی سکت اور دوسرے ہولناک پہلوئوں کی تفصیلات نے جگہ بنا لی ہے۔ یہ دونوں ممالک کی قومی معیشت خصوصاً غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے نہایت مہلک ہو گا۔ ایسے میں دنیا کے بڑے سرمایہ کار بھارت کی بڑی مارکیٹ کو کیا کریں گے جبکہ پاکستان میں اس کی رفتار پہلے ہی سست ہے۔

اس سارے پس منظر میں پاکستان کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایک ایسی غیر روایتی قیادت نصیب ہے جو ترقی پذیر دنیا میں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ یہ کہ ہمارے منتخب وزیراعظم زبردست ’’پاور آف کوئیسچن‘‘ کے حامل ہیں۔ یہ کیا طاقت ہے؟ پاکستان اور بھارت کے درمیان جو شدید نفسیاتی جنگ جاری ہے، اس میں ’’پاور آف کوئیسچن‘‘(Power of Question) اور اس کے استعمال میں پاکستان کی موجود قیادت کی صلاحیت کو سمجھنا بہت بڑی اور فوری قومی ضرورت ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے بظاہر ناممکن سے سفارتی ہدف کے حصول کی کوشش سے قبل، خانِ اعظم کا سیکرٹری جنرل سے رابطہ کمال اسمارٹ موو تھی جو بے پناہ نتیجہ خیز رہی۔

واضح رہے کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کا تازہ ترین زاویہ نگاہ جو بڑے ٹھوس حقائق پر بنیاد کرتا ہے، کھل کھلا کر سامنے آ گیا ہے، بڑی بڑی عالمی طاقتیں، ادارے، تنظیمیں اور حکومتیں مسئلہ کشمیر کی حقیقت کو اگرچہ بخوبی جانتی ہیں لیکن خاموش ہیں، اس پر کوئی کوئیسچن یہی بنتا ہے کہ عالمی امن کو یقینی بنانے اور سیاسی و اقتصادی عدم استحکام اور سب سے بڑھ کر انسانیت کا مفاد اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کا چارٹر اور اس کی روشنی میں عالمی ادارے کے فیصلوں پر عملدرآمد زیادہ مقدم ہے یا کسی ایک ملک کا اقتصادی و سیاسی مفاد؟ جہاں تک سلامتی کا مفاد ہے، کیا اقوام متحدہ کا چارٹر اور اس پر عملدرآمد سب ارکان ممالک کی سلامتی کو یقینی نہیں بناتا؟ کیا ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر پر عملدرآمد کی 75سالہ کیفیت اور صورت اور اس کے نتائج کا جائزہ لیا جائے؟ اور عالمی ادارے کے نظام کی اصلاح کی جائے؟

مسئلہ کشمیر، اس کی فلیش پوائنٹ کے طور بنتی شناخت اور اس حوالے سے پورے جنوبی ایشیا پر منڈلاتے ہولناک جنگ کے بادلوں کے تناظر میں ایک جاندار عالمی سوالنامہ تیار کرنا اور وزیراعظم عمران کی قیادت میں ان سوالات کو زور دار طریقوں سے چپ سادھی طاقتوں کے سامنے مسلسل اٹھائے رکھنے کی مہم، پاکستان اور خطے کے امن و سلامتی کی ہی بڑی ضرورت نہیں بن گئی، یہ اب عالمی امن و استحکام کی ناگزیر ضرورت ہے، جو زور دار پاور آف کوئیسچن سے ہی پوری ہو گی۔ پاکستانی سیاسی دانشور سوالنامے کی تیاری میں مدد دیں۔ وما علینا الاالبلاغ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین