• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ جمہوری ادوار میں جنرل کیانی کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع پانے والے دوسرے سپہ سالار ہیں، ملکی وعالمی حالات کے تناظر میں اس کو ایک اہم اور ضروری فیصلہ قراردیا جارہا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے تقرر کےبعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملک کے دسویں آرمی چیف کی حیثیت سے پاک فوج کی کمان سنبھالی تو انہیں ملکی سلامتی اور بدترین سرحدی و عالمی حالات کے سخت چیلنجز کا سامنا تھا۔ انہوں نے ایک خالص پیشہ ورانہ فوجی کی حیثیت سے ان حالات پر قابو پانے کے لئے ’’باجوہ ڈاکٹرائن“ کا تصور متعارف کروایا جس کا ون لائنر تھا کہ ’’امن خطے کی ترقی کی کنجی ہے، کسی کے معاملات میں مداخلت کرو نہ کسی کو اپنے معاملات میں مداخلت کرنے دو“۔ جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ سادہ اور ملنسار طبیعت کے حامل قمر جاوید باجوہ عالمی تاریخ کے حوالے سے بھرپور مطالعہ اور عبور رکھتے ہیں، مسلح افواج کی مضبوطی، خطے کے تمام ممالک کے ساتھ بہترین اور پُرامن تعلقات ان کا خواب ہے۔ ایک اہم ذریعے کے مطابق ایک سرکاری یونیورسٹی کی تقریب میں باجوہ صاحب نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کے حوالے سے ایک اہم سرکاری ادارے کی سروے رپورٹ کےبارے میں انکشاف کیا تھا کہ باہمی تجارتی تعلقات پاکستان اور بھارت دونوں کے حق میں ہیں۔

جنرل باجوہ نے پاک بھارت تعلقات میں بدترین سرد مہری کے دوران کرتار پور راہداری کھولنے کا بہت غیر معمولی اقدام اٹھا کر دنیا کو بتا دیا تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت اور مضبوط فوج ہونے کے باوجود اپنے ہمسایوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور شراکت داری کےفلسفے پر یقین رکھتا ہے۔ جنرل باجوہ نے پاک بھارت کشیدگی کےدوران 26فروری کے بھارتی فوجی مداخلت کے انتہائی جنونی اقدام کے جواب میں جارحانہ کے بجائے سرحدی محافظ کی حیثیت سے 27فروری کو نہ صرف ٹھوس اور بھرپور منہ توڑ جوابی کارروائی کی بلکہ گرفتار زخمی پائلٹ کو مکمل سیکورٹی اور صحت کے ساتھ واپس بھجوایا جو بھارت کے معاندانہ رویے کے جواب میں مخلصانہ انسانی رویے کا عکاس تھا۔ بدقسمتی ہےکہ پاکستان کی پرامن مذاکرات کی خواہش کے جواب میں بھارتی انتہا پسند مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں آگ لگا کر دونوں ملکوں میں جنگ کا سامان پیدا کردیا ہے۔ لاکھوں بھارتی فوج و نیم فوجی دستوں نے ڈیڑھ کروڑ نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں اور دوسری طرف ایل او سی پر پاک فوج کے حفاظتی دستوں اور معصوم شہریوں پر بلااشتعال گولہ باری بھی جاری ہے گو تمام پاکستانی، سیاسی و عسکری قیادت اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ بھرپور جذبے کے ساتھ کھڑی ہے لیکن اس ابتلا اور شورش میں ٹھنڈے مزاج کے جنرل باجوہ نے سرحدوں پر پہنچ کر بھی صبر کا دامن ہاتھ سےنہیں چھوڑا۔ وہ اب بھی اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنے ’’پیس وزڈم“ کو حکومت کے ساتھ شیئر کر رہےہیں۔ جنرل باجوہ کا تقریباً تین سالہ دور دیکھیں تو وہ کئی مشکل اہداف کےحصول میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں، اندرونی سلامتی کے لئے آپریشن ردالفساد ہو یا مدارس کو قومی دھارے میں لانے کیلئے رجسٹریشن کا معاملہ، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے غیر معمولی اقدامات ہوں یا جہادی تنظیموں یاعناصر پر پابندی کا ٹاسک۔ فاٹا انضمام اور افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا چیلنج ہو یا مشرقی سرحد پر موثر جوابی حکمت عملی، طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا ہو یا افغان حکومت کو بات چیت پر راضی کرنے کی کوششیں، مشرق وسطی میں امن کی سعی یا مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی، جنرل باجوہ نے غیرمعمولی حالات میں بھرپور اور فعال کردار ادا کیا ہے۔ یہی نہیں جب امریکہ ڈومور کی رٹ لگائے ہوئے تھا، صدر ٹرمپ کی ٹوئٹس اور پنٹاگون ہر قسم کا دباؤ ڈال رہے تھے جنرل باجوہ نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنے کا نیا راستہ کھولا، جس کا براہ راست فائدہ وزیراعظم عمران خان کو اپنے پہلے دورے امریکہ کے دوران بھی ہوا۔ جنرل باجوہ نےملک کے معاشی حالات کی بہتری اور خطے کے امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر، چین، روس، برطانیہ، ایران، افغانستان، یو اے ای، قطر، سعودی عرب اور دیگر ملکوں کے ہنگامی دورے کر کے نہ صرف سفارتی روابط بحال کئے بلکہ امداد و دوستانہ تعلقات سازگار بنانے میں اپنی پیشہ ورانہ و غیرمعمولی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وزیراعظم خود بھی ان کی اسی سحر انگیز شخصیت سے متاثر ہیں شاید تب ہی اپنے پرانے موقف سے یوٹرن لینے پر مجبور بھی ہوئے ہیں، ان کے پاس آئینی اختیار موجود تھا جس کو انہوں نے بروقت استعمال کیا۔ بقول خان صاحب، جو لیڈر یو ٹرن نہ لے وہ لیڈر ہی نہیں ہوتا لہٰذا ان کا نیا یوٹرن غیر آئینی اور نہ ہی قابل گرفت ہے بلکہ موجودہ اندرونی اور بیرونی حالات کا تقاضا ہے۔ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا مطلب پاکستان میں پائیدار امن و استحکام، افغان امن عمل کی تکمیل اور بھارت کے پاکستان دشمنی کے ازلی عزائم سے نمٹنا ہے جبکہ ایران و مشرق وسطی کے موجودہ کرائسسز کو حل کرانے میں بھی فعال کردار ادا کرنا ہے۔ تاہم تمام معاملات پر ایک صفحے پر ہونے کےباوجود وزیراعظم کو اندرونی محاذ پر ان کا فیصلہ کن امتحان بھی شروع ہو گیا ہے۔ انہیں بااختیار اور طاقتور حکومت کے طور پر بے حال و بے یارو مددگار عوام کی داد رسی اور مشکلات حل کرنے کے سنگین چیلنج کا سامنا ہے، خان صاحب کو عوام کو نہ صرف ریلیف دینے کا اپنا ہر وعدہ پورا کرنا ہے بلکہ ملک میں معاشی اور صنعتی ترقی کا پہیہ بھی گھمانا ہے، عوام کو 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینی ہیں، منشور میں دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر دینی ہے۔ بیرون ملک سے سرمایہ کاری بھی لانی ہے اور ایکسپورٹ بھی بڑھانی ہیں، خدانخواستہ وہ کامیاب نہ ہو پائے تو انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تازہ ترین