• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوے کا شمار انتہائی ذہین و فطین پرندوں میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے باقی پرندوں کی طرح پنجروں میں قید کرکے نہیں رکھا جا سکتا۔ کوے گنتی کر سکتے ہیں، حساب کتاب کے کام میں مہارت رکھتے ہیں، اپنے نفس پر ضبط کرنا جانتے ہیں، اتحاد و اتفاق کی اہمیت و افادیت سے آگاہ ہیں اور جھنڈ کی شکل میں وارد ہوتے ہیں۔ حال ہی میں سامنے آنے والی تحقیق کے دوران امریکی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کوا بغض اور کینہ رکھنے والا پرندہ ہے جو اپنے دشمن کو کبھی نہیں بھولتا۔ تحقیق کے دوران کچھ افراد نے کوئوں کو پکڑ کر ان کی ٹانگیں باندھ دیں اور انہیں قید کر دیا۔ کچھ دیر کے حبس بے جا کے بعد ان کوئوں کو رہا کیا گیا تو انہوں نے اس ظلم اور زیادتی کیخلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کوئوں کی پکار پر اردگرد منڈلاتے کوے جمع ہونے لگے اور چند منٹ بعد جب کوئوں کی معقول تعداد جمع ہوگئی تو انہوں نے حبس بے جا میں رکھنے والے محققین پر دھاوا بول دیا۔ اس دوران ان افراد کو کچھ نہ کہا گیا جو اس ساری کارروائی سے لاتعلق رہے مگر کوئوں کو قید کرنے والے افراد پر اس قدر زوردار حملہ کیا گیا کہ وہ دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کوئوں نے فرار ہوتے محققین کا 100میٹر تک پیچھا بھی کیا۔ چند روز بعد محققین دوبارہ اس جگہ اکٹھے ہوئے تو کوئوں نے ایک بار پھر آسمان سر پر اُٹھا لیا حالانکہ اس بار کسی نے انہیں پکڑنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اس تجربے سے یہ نتائج اخذ کئے گئے کہ کوے نہ صرف اپنے دشمن کو یاد رکھتے ہیں بلکہ موقع ملنے پر اپنے ساتھ ہونے والے زیادتیوں کا بدلہ بھی لیتے ہیں۔

کوے سے متعلق اردو ادب میں بہت کچھ لکھا گیا اور بیشتر محاوروں میں اس بیچارے کو منفی انداز میں پیش کیا گیا۔ مثال کے طور پر کوا ہنس کی چال چلے تو بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کوے کی فاختہ سے اَن بن ہو تو بھی ہمیں کوا ہی ظالم محسوس ہوتا ہے، اس لئے کہا جاتا ہے کہ دُکھ جھیلیں بی فاختہ، کوے انڈے کھائیں۔ گاہے یوں محسوس ہوتا ہے ہم انسان سیانے کووں کی عقلمندی سے جلتے ہیں۔ کوے کو انتہائی ظالم، جابر اور بے رحم پرندے کے طور پر مشہور کیا گیا ہے، مثال کے طور پر ایک مشہور ہندی نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

کاگا سب تن کھائیو، چن چن کھائیو ماس

دو نیناں مت کھائیو، انہیں پیا ملن کی آس

حالانکہ کوا تو نہایت درویش اور فقیر منش پرندہ ہے، سب کے دروازے پر جاکر صدا لگاتا ہے، جو دے اس کا بھلا، جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ وہ بیچارہ تو محبت کا سفیر بن کر آپ کی منڈیر پر آتا ہے اور کورنش بجا لاتا ہے، اگر آپ محبوب سے روٹھے ہوئے ہیں، اپنے کواڑ مقفل کر چکے ہیں اور دل کے بہلانے کو یہ کہہ رہے ہیں کہ ’یقین وعدہ نہیں تابِ انتظار نہیں‘ تو اس میں کوے کا کیا قصور؟ کوا کائیں کائیں کر کے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتا ہے تو بھی ہمیں یہ بات ناگوار گزرتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے ہماری خاموشی اور بزدلی کا مذاق اُڑا رہا ہے، کائیں کائیں کر کے ہماری غیرت کو للکار رہا ہے، ہمیں خوابِ غفلت سے جگانے کی کوشش کر رہا ہے اور ہم انسانوں کو ظلم کے خلاف بغاوت پر اُکسا رہا ہے۔ حالانکہ گھڑے کے پیندے سے جڑے انسانوں کو اوپر اُٹھانے کی غرض سے کوا بیچارہ چاہے بھی تو یہ بھاری پتھر نہیں اُٹھا سکتا۔

مولانا ابو الکلام آزاد تقسیم ِہند سے قبل قلعہ احمد نگر میں قید تھے اور اسیری کے دوران ملاقاتوں پر پابندی عائد تھی مگر کوئوں سے ہمکلام ہونے پر کوئی قدغن نہ تھی۔ انہوں نے ’’غبارِ خاطر‘‘ میں حکایتِ زاغ و بلبل کے عنوان سے شائع ہونے والے خط میں اس گفت و شنید کا حال بیان کیا ہے۔ مولانا آزاد جیسے اعلیٰ ظرف انسان نے بھی کوئوں کے بارے میں کلمہ خیر نہیں لکھا بلکہ ان پر ’دریوزہ گران ہرجائی‘ کی پھبتی کسی ہے۔ مولانا آزاد کے ساتھ کانگریس کے دیگر رہنما بھی قید تھے۔ وہ کانگریسی رہنما سید محمود سے متعلق لکھتے ہیں ’’روز صبح روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہاتھ میں لے کر نکل جاتے اور صحن میں جا کھڑے ہوتے۔ پھر جہاں تک حلق کام دیتا، آ، آ، آ کرتے جاتے اور ٹکڑے فضا کو دکھا کر پھینکتے رہتے۔ یہ صلائے عام مینائوں کو تو ملتفت نہ کر سکی البتہ شہرستانِ ہوا کے دریوزہ گران ہرجائی یعنی کوئوں نے ہر طرف سے ہجوم شروع کر دیا۔ میں نے کوئوں کو شہرستانِ ہوا کا دریوزہ گر اس لئے کہا کہ کبھی انہیں مہمانوں کی طرح کہیں آتے جاتے دیکھا نہیں، طفیلیوں کے غول میں بھی بہت کم دکھائی پڑے، ہمیشہ اسی عالم میں پایا کہ فقیروں کی طرح ہر دروازے پر پہنچے، صدائیں لگائیں اور چل دیئے۔ فقیرانہ آئے، صدا کر چلے۔ بہرحال محمود صاحب آ، آ، کے تسلسل سے تھک کر جونہی مڑتے یہ دریوزہ گرانِ کوتہ آستیں فوراً آگے بڑھتے اور اپنی دراز دستیوں سے دستر خوان صاف کرکے رکھ دیتے۔ اے کوتہ آستیناں! تاکے دراز دستی۔ صحن کے شمالی کنارے میں ایک نیم کا تناور درخت ہے۔ اس پر گلہریوں کے جھنڈ کودتے پھرتے ہیں، انہوں نے جو دیکھا کہ :صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے، تو فوراً لبیک لبیک اور ’’مرحمت عالی زیاد‘‘ کہتے ہوئے اس دسترخوان کرم پر ٹوٹ پڑیں۔ کوے جنہیں طفیلی سمجھ کر میزبان عالی ہمت نے چنداں تعرض نہیں کیا تھا، اچانک اس قدر بڑھ گئے کہ معلوم ہونے لگا، پورے احمد نگر کو اس بخشش عام کی خبر مل گئی ہے اور علاقے سے سارے کوئوں نے اپنے اپنے گھروں کو خیرباد کہہ کر یہیں دھونی مارنے کی ٹھان لی ہے۔ بیچاری مینائوں کو جو اس ضیافت کی اصل مہمان تھیں، ابھی تک خبر نہیں پہنچی تھی۔ اب اگر پہنچ جاتی تو بھلا طفیلیوں کے اس ہجوم میں ان کے لئے جگہ کہاں نکلنے والی تھی۔ محمود صاحب کے صلائے عام سے پہلے ہی یہاں کوئوں کی کائیں کائیں کی روشن چوکی برابر بجتی رہتی تھی۔ اب جو ان کا دستر خوانِ کرم بچھا تو نقاروں پر بھی چوب پڑ گئی۔ ایک دو دن تک تو لوگوں نے صبر کیا، آخر ان سے کہنا پڑا کہ اگر آپ کے دستِ کرم کی بخششیں رُک نہیں سکتیں تو کم از کم چند دنوں کے لئے ملتوی ہی کر دیجئے ورنہ ان ترکانِ یغما دوست کی ترکتازیاں، کمروں کے اندر کے گوشہ نشینوں کو بھی امن چین سے بیٹھنے نہ دیں گی۔ اور ابھی تو صرف احمد نگر کے کوئوں کو خبر ملی ہے، اگرفیضِ عام کا یہ لنگر خانہ اسی طرح جاری رہا تو عجب نہیں کہ تمام دکن کے کوے قلعہ احمد نگر پر حملہ بول دیں اور آپ کو صائب کا شعر یاد دلائیں: دور دستاں رابہ احسان یاد کردن ہمت است۔ ورنہ ہر نخلے بہ پائے خود ثمرمی افگند‘‘۔

یہ تو خیر تمہید تھی مگر اصل بات یہ ہے کہ وہ کوا جو کل تک کچھ لوگوں کو سیاہ دکھائی دیتا تھا، اب سفید نظر آتا ہے، اگر آپ سرائیکی کے الفاظ کا حِظ اُٹھانے دیں تو یہ ’کاں‘ اچانک ’چٹا‘ کیوں ہو جاتا ہے؟

تازہ ترین