• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر۔عارف محمود (انڈیا)حال مقیم لندن
امید ہے کہ قارئین جنگ اس عنوان کو خود مکمل کرلیں گے۔ میں ایک بھارتی مسلمان ہوں اور آج کل اپنی ریٹائرڈ لائف اور تنہائی کو خوشگوار بنانے کے لئے کچھ دنوں کے لئے اپنی بیٹی کی فیملی کے پاس لندن آیا ہوا ہوں۔ مجھے اردو فکشن کے ساتھ ہی اردو اخبارات پڑھنے کا نشہ ہے۔ یہاں اردوکا کوئی انڈین اخبار نہیں ملتا اس لئے ایک عادی سگریٹ پینے والے کی طرح دوسرے برانڈ روزنامہ جنگ سے اپنے نشہ کو سکون پہنچا رہا تھا کہ اچانک پانچ اگست کے بعد اس کے موضوعات میں تبدیلیاں نظرآنے لگیں ان میں عنوانات اور قلم کاروں کے نام تو ضرور جدا جدا ہیں لیکن ان کے مفہوم تقریباً ایک ہیں ان کو پڑھ کر مجھے اپنے ایک سابق پڑوسی ’’منے خان‘‘ یاد آگئے۔ منے خان ہر ایک سے لڑتے تھے اس لئے نہ صرف محلہ والے بلکہ ان کے گھر والے بھی عاجز تھے۔ خلاف مزاج کسی بات پر پتھر یا اینٹ کا گبا لے کر سامنے والے کا سر پھوڑنے کے لئے دوڑنا ان کی عادت تھی یہ الگ بات ہے کہ سر پھوٹنے کی نوبت نہیں آتی کیونکہ لوگ بیچ بچائو کرادیا کرتے تھے۔ کوئی پچاس سال قبل وہ اچانک اپنی بیوی اور دو جوان بیٹوں کیساتھ غائب ہوگئے معلوم ہوا کہ خاموشی کے اپنے مکان کو فروخت کرکے وہ ’’آنجہانی‘‘ مشرقی پاکستان چلے گئے۔ ہم سب ان کو تقریباً بھول چکے تھے کہ آٹھ دس سال کے بعد اچانک ہی وہ پھر نازل ہوگئےلیکن تنہا آئے اور اپنے کسی سسرالی عزیز کے ہاں بطور مہمان قیام کیا۔ ایک بڑا تغیر یہ سننے میں آیا کہ واپسی کے بعد وہ لوگوں سے خود کو منے خان کے بجائے ’’منے دا‘‘ کہلانے لگے۔ میری پہلی اور آخری ملاقات اس دن ہوئی جب وہ میرے پڑوسی سے اپنے سابق فروخت شدہ مکان کی کچھ بقایا رقم وصول کرنے آئے جو بقول منے دا اسنے اپنے وعدے کے مطابق ان کو کسی ذریعہ سے نہیں بھیجی اور اب وہ رقم کے باقی ہونے ہی سے انکار کررہا ہے۔ بات اتنی بڑھی کہ سارا محلہ اکٹھا ہوگیا۔ میرا پڑوسی گھر سے اپنی لاٹھی نکال لایا۔ لاٹھی کو دیکھ کر ’منے دا‘ اچانک منے خان ہوگئے لیکن دس بارہ سال کی جلاوطنی سے ایک بڑایہ بھی ہوا کہ ان کو گلی میں پڑے ہوئے پتھر اور اینٹ کے روڑے نہیں دکھائی پڑے بلکہ وہ قرض خواہ کی پختہ دیوار کی اینٹ نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ کسی بچہ نے کہا چچا اینٹ تو سامنے پڑی ہے۔ چچا کو مزید غصہ آگیا ’’خاموش رہو میں اسی کی دیوار کی اینٹ سے اس کا سر توڑ دوں گا۔ نتیجہ پھر وہی ہوا کہ لوگوں کو وقتی طور پر معاملہ کو رفع دفع کرانا پڑا۔ منے دا اینٹ کی تلاش میں پھنکارتے ہوئے واپس چلے گئے لیکن میں لاٹھی کی طاقت کا قائل ہوگیا۔
تازہ ترین