• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوسلو کی سفید سرزمین پر ہڈیوں میں اترنے والی برفانی ہوا کے شور میں شاعری کی بہتی ہوئی آتشِ سیال کے ساتھ تین دن گزارنے کے بعد مجھے معلوم ہوا ’’میری رگوں میں شاعری کی جو آگ دوڑ رہی ہے، اس کے سامنے زندگی کو منجمد کرتی ہوئی یہ برفانی ہوا کچھ بھی نہیں‘‘۔

پھر یاد آیا کہ معروف ناول نگار اور نارویجین شاعر لارش سوبیئے کرسٹن نے بہت عرصہ پہلے ایسا ہی کچھ کہا تھا۔ رگوں میں اُترتی ہوئی سردی میں دور دور تک لٹھے کے تھان کی طرح بچھی ہوئی برف پر میں نے جو الٹی ترچھی لکیریں کھینچی تھیں وہ یادداشت سے ابھر ابھر کر سامنے آنے لگیں۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری اور میں اوسلو کے گارڈ رامن ایئر پورٹ پر اترے تو اظہر اقبال اور فواد شیخ کی سرکردگی میں استقبال کرنے والوں کا ایک ہجوم وہاں موجود تھا۔ خوشگوار موسم میں چہروں پر محبت کی گرمی پھیلی ہوئی تھی۔ جشن آزادی کے حوالے سے ہونے والی تقریب میں دن بھر مسلسل بارش کے باوجود سارا اوسلو امڈ آیا تھا۔ اتنے پاکستانی جمع ہو گئے تھے کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ ہم ناروے کے شہر اوسلو کے کسی ہال میں ہیں۔ اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں موجودگی کا احساس ہو رہا تھا۔ تقریب میں اوسلو کی خاتون میئر بھی شریک ہوئیں۔ وہ اکیلی اپنی گاڑی پر آئیں اور اکیلی اپنی گاڑی خود ڈرائیور کر کے واپس چلی گئیں پھر یاد کے در وا ہوئے۔ انیس سو بانوے یا ترانوے کی بات ہے۔ ایک کانسٹیبل نے ناروے کے وزیراعظم کا ڈرائیونگ لائنس تیز رفتاری کے سبب منسوخ کر دیا تھا اور وہ روز اپیل کرتا تھا کہ مجھے دفتر آنے جانے میں بہت مسئلہ ہوتا ہے، براہِ کرم میرا لائنس بحال کیا جائے۔

اگلی صبح ہم ہولمن کولن سکی میوزیم اینڈ ٹاور دیکھنے گئے پھر میری حیاتِ گزشتہ کی کتاب کے ورق پلٹ پلٹ گئے۔ مجھے بہت سال پہلے کا ایک دسمبر یاد آیا۔ یہاں برف ہی برف تھی۔ تقریباً دو سو فٹ کی بلندی سے اسکیٹنگ کرنے والے جوڑے آتے تھے اور اپنے جوہر دکھاتے ہوئے زمین پر پہنچتے تھے اور پھر دوسری طرف کی بلندیوں کو چھونے لگتے تھے۔ آج یہاں برف نہیں تھی مگر میوزیم دیکھنے والے سیاح خاصی تعداد میں موجود تھے۔ اس میوزیم میں قدیم زمانے میں موسم کی سختیوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی اشیاء رکھی گئی تھیں۔ دو حنوط شدہ جانور بھی تھے۔ ایک بہت بڑا برفانی ریچھ تھا اور دوسرا بیل کے برابر کا ایک بارہ سنگھا۔ یہ دونوں نایاب نسلیں اب بھی ناروے میں پائی جاتی ہیں۔ قدیم سمندری کشتیاں بھی تھیں۔

سہہ پہر کے وقت افضال کی لانچ پر سمندر کی سیر کو نکلے۔ لانچ کی ڈرائیونگ سیٹ قاسم خان سوری نے سنبھال لی اور پھر ہماری لانچ کئی گھنٹے ناروے کے سمندر کو اپنے پائوں تلے یوں روندتی رہی جیسے بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑتے ہیں۔

اگلی صبح ہم چھ بجے اوسلو سے نکلے اور سویڈن میں داخل ہو گئے۔ میں پہلے بھی کسی زمانے میں اس سڑک سے گزرا تھا۔ یہ پہاڑوں پر بل کھاتی ہوئی سنگل سٹرک ہوا کرتی تھی مگر اب تو ڈبل روڈ تھا۔ کہیں کوئی پل موجود نہیں تھا؎۔ تمام پہاڑیوں سے سرنگوں کے ذریعے سڑک کو بالکل سیدھا کر دیا گیا تھا۔ مجھے اپنا موٹر وے یاد آگیا جہاں کلر کہار کی پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے موٹر وے کو اتنے بل دئیے گئے ہیں کہ گاڑیوں کا سانس سوکھنے لگتا ہے۔ سویڈن سے ہمیں ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن آنا تھا جہاں پاکستان سوسائٹی نے قاسم خان سوری کے اعزاز میں بہت بڑی تقریب کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ہم شام کو سات بجے تقریب میں پہنچے۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہ سب عمران خان کے چاہنے والے تھے اور اُس کے ایک سپاہی کی گفتگو سننے آئے تھے۔ قاسم خان سوری نے وہاں کشمیر کے موضوع پر بڑی مدلل تقریر کی۔ اس تقریب کے اختتام پر پانچ سو لوگوں کے لئے شاندار کھانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ مردوں اور عورتوں کی تعداد تقربیاً برابر تھی۔ ڈنمارک کی وزیراعظم بھی ان دنوں ایک خاتون ہیں۔ ایک عام سے مکان میں رہتی ہیں۔ ان کے پاس کوئی گارڈ نہیں۔ گھر کے دروازے پر کسی سپاہی کی کوئی ڈیوٹی نہیں ہوتی۔ روزانہ خود گاڑی چلا کر دفتر جاتی ہیں اور شام کو واپس گھر آ جاتی ہیں۔

قاسم خان سوری مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں جہاں جاتے ہیں وہیں مودی حکومت کی طرف سے کشمیری پر ہونے والے ظلم و ستم کا حقیقی منظر نامہ لوگوں کو دکھاتے ہیں اور انہیں آزادیٔ کشمیر کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار کرتے ہیں۔ آخر میں کشمیر کی وساطت سے کشمیر پہ لکھی ایک تازہ نظم پیش خدمت ہے

’’مولا تجھےنمازِ تہجد کا واسطہ؍ دم دم فروغِ اسمِ محمدؐ کا واسطہ؍ کشمیر پر کرم کہ ستم انتہا پہ ہے؍ یہ کربلائے شام المِ انتہا پہ ہے؍ وحشت سرائے صحبتِ غم انتہا پہ ہے؍ کشمیر کو چرایا گیا ایک ایک کوس؍ نکلے ہیں ٹینک ظلم کے گرد و غبار سے؍ آیا ہے خاک و خون کا موسم گزار خیر؍ برپا ہر اک مکاں میں ہے ماتم گزار خیر؍ قیدی تمام لوگ ہیں باہم گزار خیر؍ ہم سے نہیں گزرتی شبِ غم گزار خیر؍ بہتے ہوئے چنار بدن چوم چوم کر؍ آتش صفت چکوٹھی کے ساحل کے ساتھ ساتھ؍ لوٹائے وارثوں کو شہیدوں کی میتیں؍ آئیں سری نگر سے امیدوں کی میتیں؍ سنتی ہے داؤ کھن کی گلی ان کی یاد میں؍ لیپا سے قاضی ناگ کی پُرشور سسکیاں؍ ہر صبح دیکھتی ہے چناری بچشمِ نم؍ گرتا ہے آسماں سے کہیں چھم کا آبشار؍ نارنجی لگ رہے تھے ہوا کے سفید گال؍ چپ چاپ چل رہی تھی پرندوں کی ایک ڈار؍ یک لخت ایک چیخ سے وادی لرز اٹھی؍ بارود کی سرنگ پہ اک بھورے ریچھ نے رکھا قدم تو موت اگلنے لگی زمیں؍ اک فاختہ کے پر بھی فضا میں بکھر گئے؍ اک پیڑ ہم مقام شہیدوں کا ہو گیا؍ وادی تمام شوقِ شہادت میں کھو گئی؍ سب آگئے وہ چشمۂ کوثر کے آس پاس؍ اک ساقیٔ حیات کے منظر کے آس پاس۔

تازہ ترین