• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میر ابوالقاسم نمکین کا شمار اکبر بادشاہ کے درباری امیروں میں ہوتا ہے۔ اکبر بادشاہ نے سنہ 1007ھ میں بکھر کی صوبہ داری ان کو تفویض کی تھی۔اپنی حاکمیت کے زمانہ میں اس نے سکھر میں ایک عالی شان مسجد تعمیر کروائی۔ اس کا یہ زمانہ ٔ صوبہ داری اس لحاظ سے ناکام رہا کہ بعض امراء کو اس سے شکایتیں پیدا ہو گئیں اور یہ شکایتیں سکھر سے نکل کر وقائع نویسوں کے ذریعے اکبر بادشاہ تک جاپہنچیں تو اس نے ابوالقاسم نمکین کو معزول کر دیا۔ میر ابوالقاسم نمکین کو سکھر کی فضا بہت پسند آئی تھی۔ وہ روہڑی کے قریب دریا کے کنارے رہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ سکھر میں مستقل سکونت اختیار کر لے، لیکن حالات نے اس کو مزید ٹھہرنے کا موقع نہیں دیا۔ معزولی کے بعد کا زمانہ اس نے بڑی مشکلات میں گزارا۔

جب جہانگیر کے دور حکومت میں شہزادہ خسرو نے بغاوت کی تو شہنشاہ جہانگیر نے مختلف صوبوں کےحاکموں کو فرمان بھیجے اور ہدایت کی کہ وہ اپنے علاقے سے سلطان خسرو کو گزرنے کی اجازت نہ دیں۔ ابوالقاسم نمکین نے اس سلسلہ میں بڑی سرگرمی دکھائی اور اُسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کا یہ کارنامہ ایسا تھا کہ اس پر جہانگیر کی توجہ مبذول ہوئی۔ اس نے اس کو ہزاری منصب عطا کرکے دوبارہ بکھر کی صوبہ داری مرحمت کی۔ اس بار میر ابوالقاسم نمکین نے بکھر پہنچتے ہی وہاں مستقل قیام کر لیا۔ ’’باثرالآمرا ‘‘کے مؤلف صمصام الدولہ کا بیان ہے کہ ابوالقاسم نمکین نے بکھر پہنچتے ہی سندھ کو اپنا وطن قرار دیا اور اس چٹان پر جو بکھر کے قلعہ کے مقابل ہے اور روہڑی سے جنوب کی طرف دریائے سندھ سے متصل اپنا قبرستان بنوایا اور’’ صفۂ صفا‘‘ اس کا نام رکھا۔ چاندنی رات میں یہ جگہ بڑی دلکش اور خوبصورت معلوم ہوتی تھی۔ اتنی دلکش اور خوبصورت کہ سندھ میں اس کی دوسری مثال مشکل ہی سے مل سکے گی۔

میرابوالقاسم نمکین چاندنی راتیں اسی صفۂ صفا میں گزارا کرتا تھا۔ یہیں اس کی ارباب علم و فضل کے ساتھ مجلس ہوتی تھیں۔ یہاں شعر و ادب کی محفلیں جمتی تھیں اور مذہبی اور علمی موضوعات پر گفتگو رہتی تھی۔ اس کے قریب واقع قصبہ خربوزوں کی کاشتٰ کے لیے مشہور تھا۔ وہاں انتہائی شیریں، لذیذ اور مزے دار خربوزے اگتے تھے۔ اس جیسے خربوز سندھ کے کسی شہر یا علاقہ میں نہیں ہوتے تھے۔ ان خربوزوں سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی تھی۔ میر ابوالقاسم نمکین کو سنہ 1018ھ میں قندھار جانا پڑا، وہاں وہ ایک لڑائی کے دوران مارا گیا۔ اس کی لاش سکھر لائی گئی اور اس نے اپنی زندگی میں صفۂ صفا کے نام سے جو قبرستان تعمیر کرایا تھااسی میں سپرد خاک کر دی گئی۔

صفۂ صفا کا تاریخی قبرستان، دریائے سندھ کے بائیں کنارے اور لینس ڈائون پل سے متصل ہے۔ اس قبرستان کو سندھی میں ستین جوآستان بھی کہا جاتا ہے۔ ستیون کا یہ آستان پہاڑ کے ایک بڑے ٹکڑے پر بنا ہوا ہے۔ جس پر درجنوں قبریں موجود ہیں۔ ان میں کچھ قبریں ایسی بھی ہیں جو نقش و نگاری کا بہترین نمونہ ہیں۔ اسی طرز کی قبریں میر معصوم شاہ کے مینار کے احاطے کے علاوہ ٹھٹھہ کے قریب مکلی کے قبرستان میں بھی موجود ہیں۔ صفہ ٔ صفا قبرستان پر موجودہ قبروں پر جو نقش و نگار موجود ہیں ان کو دیکھتے ہی مکلی کا قبرستان یاد آ جاتا ہے۔

ستین کا آسان صرف سندھ ہی میں نہیں بلکہ پاکستان کے کونے کونے میں اپنی مختلف داستانوں کی وجہ سے مشہور ہے ان داستانوں میں سب سے زیادہ مشہورداستان یہ ہے کہ بہت عرصہ قبل اس علاقے میں سات پاک دامن خواتین تھیں جو آپس میں گہری سہیلیاں تھیں۔ ان خواتین کو جب کسی خطرے کا ادراک ہوا تو وہ اس پہاڑ پر پہنچ گئیں، جہاں سے آگے جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس لئے انہوںنے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ وہ ان کی حفاظت کرے اور ان کو زمین میں غرق کر دے۔ ان کی دعا قبول ہوئی اوروہاں زمین پھٹی اور وہ ساتوں سہیلیاں اس میں سما گئیں۔ اسی لئے یہاں جو قبریں بنی ہوئی ہیں وہ ان سات سہیلیوں کی ہیں۔ اسی طرح کی داستانیں سینہ بہ سینہ لوگوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں لیکن ان داستانوں میں کچھ رنگ یہاں پر عامل خواتین نے بھر دیا۔ کیونکہ اس ستیون کے آستان پر چند ایسی خواتین موجود ہیں جو یہاں آنے والے لوگوں خصوصاً خواتین پر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہاں پر یہ جو ایک کمرہ ہے اس میں وہ سات سہیلیاں غرق ہو گئی تھیں لیکن ان کےچند بال غرق نہیں ہوئے تھے ،وہ یہاں موجود ہیں۔ اس طرح یہ تعویز گنڈوں کا سہارا تلاش کرنے والی خواتین سے پیسے بٹور لیتی ہیں اور اس کمرے میں کچھ دیر کے لئے ضعیف العقیدہ خواتین کو لے جایا جاتا ہے۔ جہاں ایک بچوں کا جھولا فرش پر رکھا ہوا ہے اور وہاں کچھ خواتین نے اپنی منتوں، مرادوں کے دوپٹے اور دھاگے باندھ رکھے ہیں، اس کے علاوہ اس کمرے میں کچھ بھی نہیں ہے۔

صفہ ٔ صفا، مغلیہ دور کا ایک تاریخی قبرستان ہے۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہاں پر ایک اونچے چبوترے پر جو سات بڑی قبریں بنی ہوئی ہیں ان میں ایک قبر بھی کسی خاتون کی نہیں۔ اس چبوترے پر سب سے بڑی قبر خود میر ابوالقاسم نمکین کی ہے۔ باقی قبریں اس کے بیٹوں اور رشتہ داروں کی ہیں۔ دریا کی طرف سے پتھروں کا انتہائی مضبوط پشتہ لگایا گیا ہے تاکہ کسی قسم کے طوفان یا سیلاب سے ان قبروں کو گزند نہ پہنچے۔ اس کے مقابل بہت سے زینوں کو چڑھ کر اس چبوترے پر پہنچا جا سکتا ہے، جس پر قبریں بنی ہوئی ہیں۔ زینوں کے درمیان ایک دروازہ سا بنا ہوا ہے، جس میں بہترین نقاشی کی گئی ہے۔ جس چبوترے پر قبریں ہیں اس چبوترے کا فرش پتھر کا ہے۔ بعض قبروں پر پتھروں کو تراش کر زنجیرے اور کتبے تحریر کئے گئے ہیں۔ صفۂ صفا کی بعض قبریں زرد پتھروں کی بنی ہوئی ہیں۔ یہ پتھر سکھر میں استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ باہر سے منگوایا گیا ہو گا۔ صفہ ٔ صفا میں سب سے پہلی قبر میر ابوالقاسم نمکین کی ہے کیونکہ اس کو اس نے بنایا تھا اور وہی سب سے پہلے 1018ھ میں اس قبرستان میں دفن ہوا تھا۔ اس کی قبر ایک بلند چبوترے پر واقع ہے۔ اس کی دیواریں قرآنی آیات سے مزین ہیں، اس کی قبر پر تین کتبے لگے ہوئے ہیں ۔میرابوالقاسم نمکین کے دو درجن سے زائد بیٹے تھے۔ بعض مورخین نے ان کی تعداد 21اور بعض نے 30بتائی ہے جس چبوترے پر ان کی قبر ہے، اس چبوترے پر تین قبریں ہیں۔ ان ہی تین قبروں میں ایک قبر میر ابوالقاسم نمکین کے بیٹے میر ابوالبقا کی ہے جس کی نگرانی میں جامع مسجد شاہجہانی تعمیر ہوئی تھی۔ اس کی قبر بڑی خوبصورت ہے یہاں پر ایک اور قبربھی بنی ہوئی ہے، جس کا کتبہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ہے اس کی عبارت صاف طور پر پڑھی نہیں جا سکتی مگر محض اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس میں مدفون شخص کا نام عبدالعلی ہے جب کہ سالِ وفات کی شناخت ممکن نہیں ہے۔

یہ تو ان قبروں اور کتبوں کا ذکر ہے جو ’’ستین جوآستان المعروف بہ ’’صفہ ٔ صفا‘‘ میں میر ابوالقاسم نمکین کی قبر کے چبوترے پر واقع ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ ستین جوآستان کے صحن میں بھی متعدد قبریں بھی ہیں ان کے متعلق یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ کس کی قبریں ہیں کیونکہ ان کے حالات، تاریخ یا تذکروں میں نہیں ملتے۔ میر ابوالقاسم نمکین نے پہاڑ ی کے اس ٹیلے پر ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر میں بھی مغلیہ طرز تعمیر کی جھلک صاف نمایاں ہے گوکہ اب اس کی حالت مخدوش ہو چکی ہے، جو اب بھی صاف نظر آتا ہے۔ میر ابوالقاسم کے زمانے ہی سے یہاں عام افراد کے داخلے پر پابندی تھی۔ جب حاکم ِ بکھر کے اہل خانہ کی موت ہوئی تو ان کی تدفین اسی پہاڑ کے ٹیلے پر کی گئی۔ اسی وجہ سے اُسے شاہی قبرستان قرار دیا گیا۔اس پر ہر وقت پہرہ ہوتا تھا۔ چونکہ یہ ایک شاہی قبرستان تھا اس لئے اس پر بنائی جانے والی قبروں کی آرائش بھی اسی انداز میں کی گئی۔ قبروں پر فارسی زبان میں عبارتیں تحریر ہیں۔ حاکم بکھر کی قبر پر میر ابوالقاسم نمکین لکھا ہوا ہے۔ پہاڑ کا یہ ٹیلہ دریا کے بالکل کنارے پر واقع ہے۔ یہاں پر کھڑے ہو کر نہ صرف سکھر، بلکہ روہڑی کے مختلف حصوں کا نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی شاہی قبرستان کے سامنے تاریخی لینس ڈائون اور ایوب برج بھی ہیں جب کہ اس پہاڑ سے دریا اور سکھر بیراج بالکل واضح نظر آتا ہے۔

اگر اس سلسلے میں مزید تحقیق کی جائے اور ایک ایک قبر سے متعلق تحقیقات کی جائیں تو نہ صرف ہماری تاریخ کے اوراق کہنہ سے پردہ اٹھے گا۔ بلکہ ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہو گا۔ اس قبرستان کی قبروں کی تاریخوں پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں تدفین کا سلسلہ سولہ سو ہجری سے شروع ہوتا ہے۔ صفہ ٔ صفایا ستین جو آستین تاریخی اعتبار سے سکھر کا سب سے زیادہ اہم تاریخی قبرستان ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے جس پر کسی نے دھیان بھی نہ دیا ہے۔ اس کی قبروں کے کتبے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے یا مٹ گئے تھے بعض میناروں اور دیواروں کو بھی نقصان پہنچا۔ لیکن قیام پاکستان سے بہت پہلے محکمہ آثار ِ قدیمہ نے اس قبرستان کی حفاظت کے لئے مناسب بندوبست کیا اور مرمت بھی کروائی تھی تاکہ یہ قبرستان اپنی اصلی حالت میں باقی رہے اس طرح متعلقہ قبروں پر متعلقہ کتبے نصب کئے گئے تھے۔ تاہم اب بھی یہ جگہ مناسب دیکھ بھال اور مرمت کی متقاضی ہے تا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا نام نہ مٹ جائے اور یہ جگہ ہماری آنے والی نسلیں بھی دیکھ سکیں۔ تاریخی مقامات کسی بھی قوم کی ثقافت کی علامت یا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال ملک و قوم بالخصوص مقتدر حلقوں کی ذمے داری ہے۔ 

تازہ ترین