• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ نے فدا فنافنی کا نام سنا ہے؟ میں جانتا ہوں آپ نے فدا فنافنی کا نام نہیں سنا ہوگا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ آپ نے جس شخص کا نام تک نہیں سنا ہے تو پھر آپ اس شخص کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔ آپ فدا فنافنی کو جانتے ہیں بلکہ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ کچھ لوگ تو فدا فنافنی کی تاریخ اور جغرافیہ تک سے واقف ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ فدا فنافنی کو اچھی طرح سے جانتے ہیں، پہچانتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ فدا فنافنی کو اس کے اصلی اور تاریخی نام فدا فنافنی کے نام سے نہیں پہچانتے۔ تاریخی ہستی ہے فدا فنافنی۔ تاریخ کے بدلتے ہوئے ادوار میں فنافنی نے بدل بدل کر اپنے نام رکھے ہیں۔ اس لئے آپ فدا فنافنی کو مختلف ناموں سے جانتے ہیں، پہچانتے ہیں۔ بڑی ہی متاثر کرنے والی شخصیت ہے۔ امیتابھ بچن نے فرنچ کٹ داڑھی کیا رکھی، برصغیر کے نوجوانوں، جوانوں، بوڑھوں اور کھڑوسوں نے چہرے پر فرنچ کٹ داڑھی سجا لی۔ فیشن آتے ہیں اور کچھ عرصے بعد عدم موجود ہو جاتے ہیں۔ ان کی جگہ نئے فیشن لے لیتے ہیں۔ نئے فیشن بھی روایت کے مطابق کچھ عرصہ بعد غائب ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ کوئی انوکھا فیشن لے لیتا ہے۔ اسی زمانے میں لوگ ڈھیلی ڈھالی پتلون پہنتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پتلونیں تنگ ہونے لگیں اور پھر لوگوں نے ایسی پتلونیں پہننا شروع کردی جو چست پاجامہ سے مشابہ ہوتی تھیں۔ ایسی پتلون کو ٹیڈی پتلون کا نام بھی دیا گیا تھا۔ رفتہ رفتہ تنگ پتلونوں کے پائنچے ڈھیلے ہونے لگے۔ ڈھیلے ہوتے ہوتے مردانہ پتلونوں کے پائنچے اس قدر ڈھیلے ہو گئے کہ غرارہ لگتے تھے۔ فیشن میں پھر تبدیلی آئی۔ آج کل برداشت کا دور چل رہا ہے۔ یعنیTolerance۔ آپ چوڑی دار پاجامہ جیسی چست پتلون پہنیں، ڈھیلی ڈھالی پتلون پہنیں۔ کسی قسم کی روک ٹوک کا سامنا آپ کو کرنا نہیں پڑے گا۔ آپ مگرمچھ کے منہ جیسا نوکیلا جوتا پہنیں یا پھر بطخ کی چونچ جیسا پھیلا ہوا جوتا پہنیں، آپ محسوس کریں گے کہ یہاں سب چلتا ہے۔ فیشن بدلتے رہتے ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں فرنچ داڑھی مشہور تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فیشن سے آئوٹ ہو گئی۔ پچیس تیس برس پہلے امیتابھ بچن نے اپنے چہرے پر فرنچ کٹ داڑھی کیا سجائی، دیکھا دیکھی برصغیر کے ہر دوسرے تیسرے جوان یا بوڑھے کے چہرے پر نظر آنے لگی اور آج تک نظر آرہی ہے۔

مگر اس قسم کی تبدیلی کا قائل فدا فنافنی نہیں ہے۔ اس نے چہرے پر فرنچ کٹ داڑھی سجائی تھی مگر تھوڑے عرصہ کے لئے۔ جس طرح کچھ کچھ عرصہ بعد وہ اپنا نام بدلتا رہتا ہے، اسی طرح وہ نت نئے نمونے کی داڑھی اپنے چہرہ پر سجاتا ہے۔ اس کے کام وہی ہوتے ہیں مگر کام کرنے کے انداز بدل جاتے ہیں۔ اتنا کچھ بتانے کے بعد میں امید رکھتا ہوں کہ اب آپ کو وہ شخص یاد آنے لگا ہوگا جسے آپ اچھی طرح جانتے ہیں مگر اسے اس کے اصلی نام فدا فنافنی کے نام سے نہیں پہچانتے۔ میں فدا فنافنی کو اس کے اصلی نام سے اس لئے پہچانتا ہوں کہ ہم دونوں کراچی کی قدیم بستی بھیم پورہ میں ایک عرصہ تک پڑوسی تھے۔ بھیم پورہ کی فٹبال ٹیم کے لئے ہم دونوں کھیلتے تھے۔ اس زمانے میں کھلاڑیوں کو کھیل کی بنیاد پر ملازمت نہیں ملتی تھی۔ پیٹ پالنے کے لئے بڑے کٹھن کام کرنا پڑتے تھے۔ روزگار کی تلاش میں ہم بچھڑ گئے۔ فدا فنافنی گڈانی میں پرانے جہاز توڑنے والی کمپنی میں کام کاج سے لگ گیا اور پرانے جہاز توڑنے لگا۔ مجھے کمیشن پر اسٹاک ایکس چینج کے شیئر بیچنے کا کام مل گیا۔ اچانک مشہور اور دولت مند بننے والے لوگوں سے ملنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ ان دنوں سماجی اور سیاسی حلقوں میں ایک صاحب کا بڑا چرچا تھا۔ اپنی جہالت کی وجہ سے میں سرکاری اور غیر سرکاری پالیسیوں اور احکامات سے نابلد ہوں۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ تاریخ کے کن پہلوئوں پر بات چیت نہیں ہو سکتی۔ وزرائے اعظم تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ کسی دور کے کسی وزیراعظم کا نام اپنی تحریر میں لیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس لئے فدا فنافنی کے قصہ میں مَیں اس دور کے وزیراعظم کا نام نہیں لوں گا۔ پاکستان کی تاریخ میں طرح طرح کے اشخاص وزیراعظم بننے کے بعد کچھ باتیں ایک جیسی کرتے ہیں۔ ہو بہو ایک جیسی۔ پاکستان اپنے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ دشمن میلی آنکھ سے ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔ پچھلے حکمرانوں نے پاکستان کو لوٹ کر کنگال کر دیا ہے۔ پچھلی حکومتوں نے اتنا قرض لیا ہے کہ آنے والی حکومت کے لئے قرض کی قسط درکنار، قرض پر سود کی قسط اتارنا مشکل ہو گیا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ 75ہزار کا مقروض ہوتا ہے، وغیرہ۔

ایک صاحب ایک بینک پہنچے۔ منیجر سے ملے، کہا ’’میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ کسی کا پیدائشی مقروض ہو۔ یہ لو قرض کی رقم، ایک لاکھ 75ہزار اور یہ بات اپنے وزیراعظم تک پہنچا دینا کہ وہ اپنی تقریروں میں یہ مت کہیں کہ پاکستان میں ہر نوزائیدہ مقروض پیدا ہوتا ہے۔ آج کے بعد کہیں کہ ایک بچےکو چھوڑ کر ہر نوزائیدہ اس دنیا میں مقروض آتا ہے‘‘۔

ان کا نام تھا، خان محمد خان خیرپوری۔ میں ان سے ملا۔ وہ مجھے دیکھتے رہے۔ میں ان کو دیکھتا رہا۔ وہ فدا فنافنی تھے۔ پرانے جہاز توڑتے توڑتے وہ نئے جہازوں کے مالک بن بیٹھے تھے مگر وہ فدا فنافنی نہیں رہے تھے۔ وہ خان محمد خان خیرپوری بن چکے تھے۔ میں نے انہیں اربوں کے شیئر بیچے ہیں۔ ملک کے اندر، ملک سے باہر ان کی بے حساب املاک ہیں۔ ان کی فیملی کے پاس صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں۔ ان کے پاس سینیٹ کی سیٹیں ہیں۔ اب بھی آپ کہیں گے کہ آپ فدا فنافنی کو نہیں جانتے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین