• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب کبھی حکومتیں کوئی بڑا منصوبہ یا ترقیاتی کام شروع کرتی ہیں تو اس پر تنقید بھی بہت زیادہ ہوتی ہے، اس کی شفافیت کے حوالے سے بڑے بڑے سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ منصوبے خود ان سوالات کے جواب دے دیتے ہیں اورآخری فیصلہ عوام ہی کرتے ہیں کہ اس منصوبے کی افادیت تھی یا قوم کا سرمایہ غرق کر دیا گیا۔ ہم سب کو یاد ہے کہ نواز شریف حکومت نے لاہور اسلام آباد موٹروے شروع کیا تو طرح طرح کے سوال اٹھائے گئے کہ پاکستان کو کوریا کے حوالے کر دیا گیا اور سڑک بنانے پر اربوں روپے کی ملکی دولت ضائع کر دی گئی۔ یہ منصوبہ کسی طرح بھی ملکی معیشت کیلئے سود مند نہیں ہو سکتا، کون ہے جو موٹروے پر سفر کرے گا مگر چند سالوں بعد اس منصوبے پر اٹھائے گئے سوالات کا جواب خود اس منصوبے نے دے دیا۔ اب ہر کوئی کٹر سے کٹر نوازشریف کا مخالف بھی اس سے نہ صرف مستفید ہوتا ہے بلکہ چند ٹوٹے پھوٹے کلمات بھی اس کے حق میں منہ سے نکل آتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ منصوبے کی تکمیل میں کک بیکس ، کمیشن اور کرپشن کے عنصر بھی شامل ہوں گے مگر افادیت کے تناسب سے ان کی حیثیت آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں ہوگی ورنہ انسانی جسم کیلئے اس کو ہضم کرنا بہت مشکل ہوتا۔ پنجاب حکومت نے اپنے موجودہ دور میں جو چند بڑے عوامی منصوبے شروع کئے ان میں پسماندہ علاقوں میں دانش اسکولوں کا قیام، کالجز میں 4 سالہ بی ایس پروگرام ، لاکھوں ذہین طلبہ میں لیپ ٹاپ کی تقسیم، اب دو لاکھ طلبہ کو مفت سولر لیمپ کی فراہمی اور عوام کو سفری سہولتوں کی فراہمی کیلئے لاہور میں میٹرو بس سروس شروع کرنا ہے ۔ دانش اسکولوں کے حوالے سے بڑی تنقید سامنے آئی کہ ایک اور نیا طبقہ پیدا کیا جا رہا ہے جو غریب اور امیر کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دے گا۔ اس کی نسبت پہلے سے موجود لاکھوں تعلیمی اداروں کی حالت زار کو سنوارنے کی ضرورت تھی اور اگر ان میں بہتری لائی جاتی تو چند ہزار بچوں کو فائدے کی بجائے کروڑوں بچوں کا مستقبل زیادہ محفوظ ہو جاتا۔ ان سوالات کے جوابات ابھی تک اس منصوبے کی طرف سے نہیں آئے۔ پنجاب کے 26 کالجوں میں چارسالہ بی ایس پروگرام کا جس اسپرٹ کے ساتھ آغاز کیا گیا تھا وہ تلاش کرنا اور آنے والے وقت میں اس پروگرام پر اٹھائے گئے سوالات کے جواب دینا ابھی باقی ہیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب نے ترقی یافتہ ممالک کی طرح اپنے نوجوانوں کو جدید تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کیلئے لاکھوں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا تو سب سے بڑی تنقید یہ کی گئی کہ یہ دراصل نوجوانوں میں عمران خان کی مقبولیت کا توڑ کرنے کا منصوبہ ہے اور اس کیلئے سرکاری وسائل استعما ل کئے جارہے ہیں، یہ صرف الیکشن میں نوجوانوں کے ووٹ لینے کا اسٹنٹ ہے ۔ لیپ ٹاپ کی تقسیم کے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں کیونکہ ان کا مثبت یا منفی استعمال خود ایک بہت بڑا سوال ہے اور یہ سوال فراہم کرنے والوں سے بھی کیا جاتا رہے گا کیونکہ والدین کے اپنے تحفظات بھی ہیں مگر مجموعی طور پر اس سے عام طالب علم کو نہ صرف فائدہ ہوا ہے بلکہ پڑھائی میں پیچھے رہ جانے والے طلبہ کے اندر اپنے آپ کو آگے بڑھانے کے احساس نے بھی جنم لیا ہے۔
لاہور میں مسلم ٹاؤن فلائی اوورز کی تعمیر کے فوری بعد گجومتہ سے شاہدرہ تک میٹرو بس سروس شروع کرنے کاجب اعلان کیا گیا یعنی ایک خواب کو عملی شکل دینے کیلئے 27کلو میٹر کا ٹریک بنانے، جس میں ایشیاء کے سب سے لمبے ساڑھے آٹھ کلو میٹر فلائی اوور کا اعلان ہوا تو ہر کسی نے وزیراعلیٰ کو آڑھے ہاتھوں لیا۔ گو اس منصوبہ پر کل اخراجات کا تخمینہ 18سے 27/ارب روپے کا لگایا گیا مگر ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ کسی صورت اتنے میں مکمل نہیں ہوسکتا اس پر کم از کم 70سے 80/ارب روپے خرچ ہوں گے اور 70سے 80/ارب روپے لگا کر لاہور کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ یہ منصوبہ ایک سال سے زیر تکمیل رہا۔ پاک ترک دوستی کا مشترکہ منصوبہ جس کا آج خادم اعلیٰ افتتاح کر رہے ہیں گو ابھی سائیڈ ٹریک مکمل کرنا اور اس منصوبے کے راستے میں آنے والی سڑکوں کی تعمیر اور کلیئرکرنے پر تین سے چھ مہینے مزید درکار ہوں گے۔ وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف ہی آج افتتاح کے موقع پر بتائیں گے کہ اس منصوبے پر کل کتنی لاگت آئی ہے اور کتنے فیصد عوام اس سے مستفید ہو سکیں گے۔ کیااس منصوبے کا مستقبل محفوظ ہے، اس منصوبے کی تکمیل کیلئے لاہور کے شہریوں نے بھی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ کئی کئی گھنٹے انہیں ٹریفک جام کے اذیت ناک عذاب کو سہنا پڑا ، ہزاروں من گردوآلودگی سے انسانی جسموں کو بیماریاں برداشت کرنا پڑیں، تعلیمی اداروں میں جانے والے لاکھوں بچوں کو روزانہ ایک نئے امتحان سے واسطہ رہا۔ ہزاروں لوگوں کے کاروبار تباہ بھی ہوئے ۔ کئی لوگوں کو اپنی جائیدادوں کے معاوضے لینے کیلئے جتن کرنے پڑے۔ یہ منصوبہ اپنی افادیت کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا جواب تو خود دے گا ۔ تب ہی جا کر لوگوں کو اطمینان اور یقین آئے گا مگر منصوبے کو سوالات کا جواب دینے کے قابل بنانے کیلئے وزیر اعلیٰ کو کچھ انتظامات کرنے ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر انرجی سب سے بڑا مسئلہ ہے اس روٹ پر سفر کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق کس طبقے سے ہے، ان کے کیا کاروبار ہیں، ان کی عمریں کیا ہیں، کیا وہ آسانی سے بس اسٹیشنوں تک پہنچ سکتے ہیں ۔ گو حکومت نے ان کیلئے برقی زینوں کا انتظام کیا ہے اور ان کی ورکنگ کیلئے جرنیٹر بھی لگائے گئے ہیں مگر جرنیٹرز کو پٹرول ، ڈیزل بھی چاہئے ہوگا۔ کیا اس کی سپلائی کابلا تعطل اور بروقت انتظام رہے گا۔ کیا ٹریک کی صفائی اور مینٹی ننس کا ایسا انتظام ہے جو ایک طے شدہ معیار کے مطابق ہمیشہ جاری رہے اور اس انتظام کو کیاقانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے؟ وزیراعلیٰ کا فرمانا ہے کہ میٹروبس سروس سے سفری کلچر یکسر بدل جائے گا۔کیااس کلچر کو بدلنے کیلئے لوگوں کی نفسیاتی ، ذہنی کیفیت کو بدلنے کا انتظام کیا گیاہے؟ انہیں ٹریفک ڈسپلن کا پابند کیسے بنایا جائے گا چونکہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے ٹرانسپورٹ مافیا بھی سب سے زیادہ متحرک ہوگا، کیااس کے توڑ کیلئے سدباب کیا گیا ہے یہ اور اس قسم کے سوالات تب تک اٹھتے رہیں گے جب تک یہ منصوبہ خود جوابات دینے کے قابل نہیں ہوتا اور اس وقت تک خود وزیراعلیٰ کی ذات کو فی الحال جواب دینے ہوں گے۔ وزیراعلیٰ کو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ جب کبھی وہ تنہا اپنی آغوش میں مگن ہوں تو ایک لمحے کیلئے ضرور سوچئے گا کہ میرے بادشاہی حکم کے آگے سب نے سر تسلیم خم کیا اور یہ منصوبہ یا دیگر منصوبے مکمل ہوئے آج میں نے انہیں انعامات بھی تقسیم کر دیئے ہیں مگر ان منصوبوں میں کون کون سی خامیاں رہ گئیں، کون کون سے ایسے احکامات ہیں جن کی وجہ سے لوگ تکلیف میں مبتلا رہے ۔ جب آپ حوصلہ مندی سے تنقید کو برداشت کرنے کے قابل ہو جائیں تو میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے میں کبھی دیر نہ لگایئے گا ، غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں اور اگر ان کو کرنے میں بدنیتی نہ ہو تو عوام نہ صرف درگزر کرتے ہیں بلکہ ان کے دلوں میں آپ کیلئے مستقل جگہ بھی بن جاتی ہے۔ حقیقی معنوں میں خادم اعلیٰ بننے کا یہ آسان ترین گر ہے نہیں تو سوالات اٹھائے جاتے رہیں گے مگر ان کے جواب سامنے نہیں آسکیں گے۔ اب آخر میں چند توجہ طلب لائنیں وزیراعلیٰ کے نئے منصوبے سولرلیمپ کی تقسیم کے حوالے سے ۔ یہ بڑا ہی احسن اقدام ہوگا کہ بلاکسی سیاسی وابستگی اور تفریق کے دو لاکھ سے زائد یہ سولر لیمپ تقسیم کئے جانے ہیں مگر اس تقسیم سے پہلے ہی یہ سوالات اٹھنے شروع ہوگئے ہیں کہ اس کی خریداری غیر شفاف طریقے سے ہوئی ہے اورقومی خزانے کو 60کروڑ روپے کا نقصان ابتدا میں ہی ہو گیا کیونکہ پوری دنیا میں سب سے اچھا سولر پینل سسٹم مونو کرسٹلائن ہوتا ہے مگر جس چینی کمپنی سے یہ سولر لیمپ خرید ے گئے ہیں ان میں پولی کرسٹلائن پینل لگا ہوا ہے۔ اس لئے اس منصوبہ کے حوالے سے اٹھائے گئے سوال کو ابتدا میں ہی حل کرنے کی ضرورت ہے اور کسی طرح کا بھی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے!
تازہ ترین