سکھ برادری کی جانب سے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ پاک بھارت تقسیم کے وقت سے نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے۔ سب سے پہلے سکھوں کے مذہبی رہنما گرو گوبند سنگھ نے 1699میں سکھوں کے لئے خالصہ کے نام سے ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا تھا، اسی سوچ کے تحت 1710میں بندا سنگھ بہادر کی قیادت میں سکھ لشکر نے مغل بادشاہ کے دور حکومت میں لاہور اور دہلی کے درمیان سرہند نامی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا لیکن یہ قبضہ صرف چھ سال تک برقرار رہ سکا، برصغیر میں جب انگریز سرکار کے خلاف تحریک آزادی نے زور پکڑا اور آزاد ہندوستان سے جب بات دو قومی نظریئے تک پہنچی اور ہندئووں کے لئے بھارت اور مسلمانوں کے لئے الگ ریاست پاکستان کا نعرہ بلند ہوا تو اسی زمانے میں سکھ برادری بھی اپنے لئے علیحدہ وطن کا نعرہ لگا چکی تھی تاہم اقلیت میں ہونے کے سبب وہ نعرہ اس طاقت سے نہیں گونج سکا جس طاقت سے گونجنے کی صورت میں سکھ اقلیت کے لئے بھی علیحدہ ریاست قائم ہو سکتی لیکن یہاں بھی جھوٹے بھارتی وعدے اور خراب ذہنیت کا ہی قصور نکلا کیونکہ 1940میں جب آزادی کی تحریک عروج پر تھی بھارتی لیڈر جواہر لعل نہرو نے سکھوں سے وعدہ کیا کہ وہ تحریک آزادی میں بھارت کا ساتھ دیں تو وہ قیام بھارت کے بعد سکھ برادری کو آئینی طور پر اتنی آزادی دے دیں گے جس میں سکھ اپنے آپ کو آزاد قوم تصور کریں لہٰذا یہ کہنا درست ہوگا کہ برصغیر کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لئے ہندو، مسلمان اور سکھوں نے مشترکہ طور پر کام کیا لیکن جس طرح بھارت نے کشمیری قیادت کو دھوکہ دے کر ضم کر لیا اسی طرح سکھ قیادت کو بھی دھوکا دیا، بھارت کی اس وعدہ خلافی اور سکھ کمیونٹی کے حقوق غصب کئے جانے کے نتیجے میں سکھ برادری میں بھارت سے آزادی کا شعور پیدا ہوا، 1947میں سکھ علیحدگی پسند رہنما کاپور سنگھ نے خالصتان تحریک شروع کی لیکن بھارتی یقین دہانیوں کے سبب یہ تحریک زیادہ نہیں چل سکی، وعدہ خلافیوں، بھارتی پنجاب کی غلط تقسیم اور سکھوں کو اقلیت ظاہر کرنے کے غلط فیصلوں نے سکھوں میں بھارت کے خلاف غم و غصہ پیدا کیا اور 1955میں مظاہرے شروع ہوئے اور جب ان مظاہروں میں شدت پیدا ہوئی تو بھارت نے پہلی دفعہ پولیس اور فوج کو ہر مندر صاحب، گولڈن ٹیمپل میں داخل کیا اور سکھ مظاہرین پر آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا، مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ پنجابی کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیا جائے جبکہ سکھوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے والے فیصلوں کو منسوخ کیا جائے لیکن اب بھارت سکھوں کے کسی بھی فیصلے کو قبول کرنے کو تیار نہ تھا، بھارت نے اس وقت طاقت سے سکھوں کو قابو کر لیا لیکن ان کی بھارت سے علیحدگی کی خواہش کو ختم نہ کر سکا تھا یہی وجہ تھی کہ بھارت سے علیحدگی کیلئے جگجیت سنگھ چوہان نے 1979ءمیں خالصتان نیشنل کونسل قائم کی، جگجیت سنگھ چوہان کا سکھوں کے روحانی پیشوا جرنیل سنگھ بھندرانوال سے بھی قریبی رابطہ تھا، سکھوں کے حقوق کیلئے 1982ءمیں جرنیل سنگھ بھندرانوال نے سکھ تنظیم اکالی دل نے زبردست مظاہر ے کئے اس موقع پر بھارتی حکومت نے تین ماہ کے اندر تیس ہزار سکھ مظاہرین کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ ہزاروں کو لاپتا کیا، اس موقع پر سکھ شہریوں میں بھارت کے خلاف زبردست منفی جذبات نے جنم لیا اور بھارت سے علیحدگی کی تحریک نے زور پکڑا تاہم اس موقع پر بھارتی حکومت نے سکھوں کے جذبات کو قابو میں اور نرم رکھنے کے لئے سکھ رہنما گیانی زیل سنگھ کو بھارت کا صدر بنانے کا فیصلہ کیا، تاہم یہ سکھوں کی خواہش نہ تھی، یہی وجہ تھی کہ سکھوں کی اہم تنظیم اکالی دل نے 1982ءمیں بھارتی دارالحکومت دہلی میں ایشین گیمز کے دوران مظاہرہ کیا اس مظاہرے میں سابق سکھ بھارتی فوجیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی، اس مظاہرے نے جہاں ایک طرف دنیا کو بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا تھا وہیں سکھوں میں بھارتی حکومت سے علیحدگی کے جذبے میں بھی اضافہ کیا، جس کا نتیجہ آپریشن بلو اسٹار کی صورت میں نکلا جس میں سکھ تحریک آزادی خالصتان کے اہم رہنما جرنیل سنگھ بھندرانوال سمیت ہزاروں سکھ حریت پسندوں کی ہلاکت ہوئی اور ان ہلاکتوں کے نتیجے میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو بھی انکے سکھ گارڈوں نے ہلاک کردیا تھا، آپریشن بلو اسٹار یکم جون سے آٹھ جون 1984تک جاری رہا جس میں چار سو ترانوے سکھ حریت پسند اور شہری ہلاک ہوئے جبکہ بھارتی فوج کے چار افسر اور اناسی جوان ہلاک ہوئے تاہم غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں میں ہے تاہم آپریشن بلو اسٹار کے ذریعے بھارت کچھ عرصے کیلئے سکھ علیحدگی پسند تحریک کو کمزور کرانے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن اس سے قبل ہی خالصتان نیشنل کونسل کے صدر جگجیت سنگھ چوہان خالصتان کا پرچم، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کر چکے تھے، آج بھی خالصتان نیشنل کونسل موجود ہے جس کے ارکان برطانیہ، یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔