• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ بھی عجیب و غریب ہے۔ ایک زمانے میں جو خطہ یا ملک تہذیب کا گہوارا تھا، چند ہی صدیوں بعد وہ کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا۔ آج کا نقشہ ہی دیکھ لیجئے، امریکہ جو کبھی مغربی تہذیب کا امام تصور ہوتا تھا، وہاں ٹرمپ صاحب منصبِ صدارت پر فائز ہیں جو تجارت کو سیاست اور سیاست کو تجارت کا درجہ دیتے ہیں، سفید فام نسل کی برتری اُن کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہے۔ تہذیبی اور اخلاقی قدریں تقریباً ہر جگہ زوال پذیر ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جہاں شاہ فیصل اور شیخ زاید بن سلطان النہیان جیسے مدبر پیدا ہوئے اور اُنہوں نے عالمی سیاست میں زبردست کردار اَدا کیا، اب وہاں معاملات نوجوان قیادت کے ہاتھ میں ہیں۔ بدقسمتی سے بیرونی تعلقات میں سرمائے نے کلیدی اہمیت اختیار کر لی ہے۔ خود ہمارا وطن پاکستان جس کی تشکیل کے لئے پورے برِصغیر کے مسلمانوں نے تاریخی جدوجہد کی تھی اور حضرت قائداعظم کی فراست، بصیرت اور کردار کی طاقت نے انگریزوں اور ہندوؤں کے خطرناک عزائم کو شکست دے کر اسلام کی ایک جدید تجربہ گاہ قائم کی تھی، وہاں بھی قدروں کا پورا نظام تلپٹ ہو چکا ہے۔

گزشتہ دو تین عشروں میں زوال کے انتہائی تکلیف دہ مناظر دیکھنے میں آئے۔ کارپوریٹ کلچر نے انسانی جذبوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے آرزوؤں کے خاکستر تعمیر کیے ہیں۔ اِن خاکستروں نے ہنستی کھیلتی زندگی میں دکھ گھول دیئے ہیں، مگر زوال چاہے کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، معاشرہ مثالی شخصیتوں سے یکسر خالی نہیں ہوا۔ اندھیروں میں بھی جگنو جگمگاتے اور فضا کو ہلکی ہلکی روشنی عطا کرتے ہیں۔ میں وقت کے بہتے دریا میں جھانکتا ہوں تو مجھے اِس میں سنگ ہائے میل کے عکس دکھائی دیتے ہیں اور ان شخصیتوں کے بھی، جو ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ مجھے سیاست دانوں میں جناب شاہد خاقان عباسی نے بہت متاثر کیا ہے۔ ایک بے ہنگم سوسائٹی میں کسی فرد کی عزت محفوظ نہیں ہوتی۔ ہمارے دوست عرفان صدیقی کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا، اس نے احساس دلایا کہ ہمارے ہاں ایسے شتر بے مہار اِدارے بھی ہیں جن کو آئین، قانون اور اخلاق کا ذرا پاس نہیں۔ ریاست جو شہریوں کی عزت و آبرو کی محافظ ہے، اگر اس کا ادارہ رات کے بارہ بجے ایک معزز شہری کو گاڑیوں کے ہجوم میں اُٹھا کر لے جائے تو وہ رشتہ ہی کمزور پڑ جاتا ہے جو شہری اور ریاست کے درمیان ایک عمرانی معاہدے کے تحت قائم ہوا ہے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اس واقعے کا درد خود وزیرِاعظم نے محسوس کیا اور جلد غلطی کا ازالہ کر دیا گیا تھا۔

ایسے ماحول میں جناب شاہد خاقان عباسی کا اچھوتا کردار مثلِ ماہتاب دمک رہا ہے۔ اُن کے خلاف ایک حلقے نے اس معاہدے پر اعتراضات اُٹھائے جو اُنہوں نے وزیرِ پٹرولیم کی حیثیت سے کیا تھا۔ اُنہوں نے الفاظ چبانے کے بجائے ببانگِ دہل کہا کہ میں معاہدے کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور قوم کے سامنے اپنے ایک ایک عمل کا جوابدہ ہوں۔ پھر غلغلہ بلند ہوا کہ نیب اُن کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے اور اُن کے خلاف ریفرنس دائر ہونے والا ہے۔ جناب شاہد خاقان عباسی نے منمنانے کے بجائے پوری مردانگی سے کہا کہ اگر مجھے گرفتار کرنا ہو، تو گرفتار کر لو، میں ضمانت کے لئے درخواست دوں گا نہ کسی سہولت کا مطالبہ کروں گا۔ جب اُنہیں گرفتار کیا گیا، تو نیب کے وکیل نے عدالت سے چودہ روزہ ریمانڈ کی استدعا کی۔ شاہد خاقان عباسی صاحب نے عدالت سے کہا کہ پورے نوے دن کا ریمانڈ دے دیجئے تاکہ نیب تسلی سے تحقیقات کر سکے۔ وہ مسکراتے ہوئے احتساب عدالت میں آتے ہیں اور مسکراتے ہوئے نیب کے کارندوں کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔ کوئی جھک جھک اور بک بک نہیں۔ وہ عزیمت کی ایک مضبوط چٹان دکھائی دیتے اور شرافت و وقار کا ایک حسین مرقع اور سیاست کی ایک نرالی شان۔ اُنہوں نے اہلِ سیاست کا قد بلند کر دیا ہے۔ وہ باتیں بنانے کے بجائے عمل کے آدمی ہیں۔ جناب نواز شریف کی عدالت کی طرف سے نااہلی کے بعد جب اُنہیں وزارتِ عظمیٰ کا منصب ملا، تو اُنہوں نے وزیرِاعظم ہاؤس میں منتقل ہو جانے کے بجائے اپنی رہائش گاہ ہی میں رہنا پسند کیا اور غیر ضروری پروٹوکول سے مکمل اجتناب کیا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس باقاعدگی سے منعقد کیے اور کفایت شعاری کا راستہ اختیار کیا۔ وہ قواعد و ضوابط کی سختی سے پابندی کرتے اور عوام کیساتھ رابطے میں رہے۔ اُنہوں نے قائدانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا اور پارلیمنٹ کو مرکزی اہمیت دی۔

ہم اِس اعتبار سے بھی خوش نصیب ہیں کہ ہمارے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی شخصیت سے بھی ذہانت، عملی فراست و استقامت کے شرارے پھوٹتے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے سندھی طلبہ کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہیں مستقبل کا معمار قرار دیا ہے۔ اُن کے خیال میں ایمانداری سے اپنے معاملات کا جائزہ لینے ہی سے ترقی کے راستے کھلتے ہیں کیونکہ کوئی دوسرا ہماری مدد کو نہیں پہنچے گا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اخلاقی قوت، عسکری طاقت سے کہیں زیادہ فیصلہ کُن ہوتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم نے ایک دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے میں ہم اِس لیے کامیاب ہوئے کہ فوج میں کمانڈر سب سے آگے ہوتا ہے اور ہماری ماؤں نے ایسے سپوت جنے ہیں جو شہادت کی آرزو رکھتے اور اپنے ملک پر جان نثار کر دیتے ہیں۔ وہ تاریخی تناظر میں بتا رہے تھے کہ سندھ نے تشکیل پاکستان میں اہم کردار اَدا کیا اور آج بھی اس کا رول قابلِ قدر ہے۔ جنرل باجوہ نے بہت کام کی باتیں کیں اور جمہوریت کو پاکستان کا مستقبل قرار دیا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ وہ جمہوریت کی حقیقی نشو و نما میں پوری دلچسپی لیں گے۔ جمہوریت کی مسلمہ تعریف عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہے۔ ہمارے دستور میں یہ بھی درج ہے کہ ’اقتدار جو ایک مقدس امانت ہے، اسے استعمال کرنے کے مُجاز صرف عوام کے منتخب نمائندے ہیں‘۔ اگر ریاست کے تمام ادارے اِس بنیادی اصول کو پیشِ نظر رکھیں اور اپنی حدود میں رہتے ہوئے فرائض انجام دیں اور آزادیٔ اظہار کا پورا پورا اِحترام کریں، تو بین الاقوامی برادری میں ہمیں بلند مقام حاصل ہو گا اور اَسّی لاکھ کشمیری جو ایک جیل میں بند کر دیئے گئے ہیں، اُن کے حق میں پاکستان کی مساعی سے عالمی برادری سے جو بلند آہنگ آوازیں اُٹھ رہی ہیں، اُن سے حیات آفریں شرارے پھوٹتے رہیں گے۔

تازہ ترین