• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کابینہ کے کچھ اراکین سے عمران خوش نہیں، وزراءکو آخری وارننگ، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہےکہ وزیراعظم عمران خان کابینہ کے کچھ اراکین سے خوش نہیں ہیں، وزراء کو آخری وارننگ دیتے ہوئے ریڈ لیٹر جاری کردیا گیا ہے، سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں نواز شریف کے دور کے لوگ ہی بیٹھے ہوئے ہیں، وزیراعظم ٹیم سے متعلق فیصلے پر پہنچ گئے ہیں، پیٹرن انچیف اپٹما گوہر اعجاز نے کہا کہ ایکسپورٹ صنعتیں ہی پاکستانی معیشت کو مسائل سے نکال سکتی ہیں، ایکسپورٹ سے متعلق پانچ سالہ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، صنعتکار اس پانچ سالہ پالیسی کو سامنے رکھ کر ہی نئی صنعتیں لگائیں گے،معروف صنعتکار عارف حبیب نے کہا کہ وزیراعظم صنعتکاروں سے ملاقات میں بہت پازیٹو نظر آئے، وزیراعظم نے اعادہ کیا کہ ملک کو آگے بڑھنا ہے تو کاروبار اور انڈسٹری کو تیز رفتاری سے بڑھانا ہوگا، پولیس کی زیرحراست ہلاک صلاح الدین کے والد ماسٹر محمد افضال نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے جیوڈیشل کمیشن بنانے کے حکم کے بعد انصاف کیلئے پرامید ہیں، صلاح الدین کی والدہ کی طبیعت کچھ بہتر ہے لیکن مکمل ٹھیک نہیں ہے، صلاح الدین پیدائشی طور پر ذہنی معذور تھا۔نمائندہ دی نیوز مہتاب حیدر نے کہا کہ ایف بی آر نے سگریٹ سیکٹر سے 150ارب روپے کا ہدف مقرر کیا ہے لیکن کوئی اسٹڈی نہیں کروائی جس سے پتا چل سکے کہ انفارمل سیکٹر کا اس انڈسٹری میں کتنا حصہ ہے، خطرہ ہے کہ حکومت انفارمل سیکٹر کے بجائے انہی کمپنیوں پر بوجھ ڈالے گی جو پہلے ہی ٹیکس د ے رہی ہیں۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کابینہ کے کچھ اراکین سے خوش نہیں ہیں، وفاقی کابینہ میں تبدیلی کے حوالے سے خبریں سامنے آرہی ہیں، وزیراعظم آفس سے آنے والی خبر کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے مطلوبہ ریکارڈ مقررہ وقت میں نہ دینے پر وزراء کو آخری وارننگ دیتے ہوئے ریڈ لیٹر جاری کردیا ہے، اہم بات یہ ہے کہ جن وزراء کی کارکردگی پر وارننگ دی گئی ہے وہ ایک دو وزارتیں نہیں بلکہ 27وزارتوں کے سیکرٹریز کو وزیراعظم کے دفتر سے ریڈ لیٹر جاری کیا گیا ہے، اس ریڈ لیٹر کے مطابق متعلقہ وزارتوں کو ٹاسک مکمل کرنے کیلئے 2اگست کو 30دن کا وقت دیا تھا،اس دوران متعلقہ وزارتوں کو ٹاسک کی اہمیت کے پیش نظر 17اگست کو یلو لیٹر بھی جاری کیا گیا تھا، اس کے باوجود جو ٹاسک دیئے گئے انہیں پورا کرنے میں بہت تاخیر کردی گئی اور اب ان متعلقہ وزارتوں کو ریڈ لیٹر جاری کرتے ہوئے 9ستمبر تک مطلوبہ ٹاسک مکمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکی کارکردگی پر تنقید ہوتی رہی لیکن وزیراعظم نےواضح کردیا کہ عثمان بزدار ہی پنجاب کے وزیراعلیٰ رہیں گے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں یہ تاثر مضبوط ہورہا ہے کہ وہ بااثر مافیاؤں کے دباؤ میں بار بار آجاتی ہے،حکومتی اراکین کے مفادات کے ٹکراؤ کی شکایت اب بڑھتی جارہی ہے، حکومت مشکل فیصلہ لیتی ہے مگر اس پر زیادہ دیر ڈٹی نہیں رہتی، فیصلہ واپس ہوجاتا ہے فیصلہ واپس کرالیا جاتا ہے، وہ فیصلے جو ملک کیلئے بہتر ہوتے ہیں مگر مافیا کیخلاف ہوتے ہیں حکومت ان فیصلوں پر زیادہ دیر قائم نہیں رہ پاتی، یہ معاملہ تمباکو پر ٹیکس کا ہے وزیراعظم نے خود سیگریٹ سیکٹر کی مثال دی جہاں 2کمپنیاں 60فیصد سگریٹ بنارہی ہیں 98فیصد سے زیادہ ٹیکس دیتی ہیں جبکہ باقی 40فیصد سگریٹ تیار کرنے والی کمپنیاں 40فیصد ٹیکس کیوں نہیں دیتیں حالانکہ اگر حکومت چاہے تو یہ کمپنیاں 35ارب روپے تک کا ٹیکس دے سکتی ہیں لیکن ان سے ٹیکس نہیں لیا جاتا بلکہ پہلے سے ٹیکس دینے والی دو کمپنیوں پر مزید ٹیکس کا بوجھ بڑھادیا جاتا ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ حکومت نے گزشتہ سال ستمبر میں اس تمباکو مافیا کو روکنے کی کوشش کی،تحریک انصاف کی حکومت نے ٹیکس چوری روکنے کیلئے اچھا قدم اٹھایا اور گرین لیف تھریشنگ پلانٹ میں ہونے والے عمل سے گزرنے کے بعد فی کلو تمباکو پر 300روپے ٹیکس لگادیا، یہ اس لحاظ سے اچھا قدم تھا کہ ملک بھر میں گرین لیف تھریشنگ پلانٹ صرف دس ہیں اور اس عمل سے گزرے بغیر سگریٹ نہیں بنتا ہے، تمباکو پر فی کلو 300روپے جو ٹیکس لگایا گیا یہ ایڈوانس ٹیکس تھا جو سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسز کی ادائیگی کے بعد یہ پیسے واپس مل جاتے ، اس پورے عمل سے حکومت کو پتا چل جاتا کہ کس کمپنی نے کتنا تمباکو خریدا اور کتنا سگریٹ تیار کیا اور کتنا ٹیکس دیا یعنی ٹیکس چوری پکڑی جاتی مگر پھر وہی ہوا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے، حکومتی فیصلے کے بعد مافیا فعال ہوئی اور حکومت پر اثرانداز ہونے لگی، یہ مافیا بھی شوگر مافیا کی طرح سیاسی طور پر بہت بااثر ہے،اس میں کئی بڑے بڑے سیاستدان ہیں جس میں اکثر کا تعلق تحریک انصاف سے ہے،قومی اسمبلی میں بھی تحریک انصاف کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ خیبرپختونخوا حکومت کا بھی حصہ ہیں،ان سیاستدانوں نے اپنا سیاسی اثر استعمال کیا، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے خصوصی کمیٹی بنائی،اس کمیٹی کے اجلاس میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی اور صوبائی وزراء شریک ہوئے جو مفادات کے تصاد م کی اعلیٰ مثال ہے ، ان سب نے مل کر ایف بی آر پر ٹیکس واپس لینے کیلئے دباؤ ڈالا، خبریں سامنے آئیں کہ اسپیکر قومی اسمبلی اس ٹیکس کی واپسی کیلئے ایف بی آر پر دباؤ ڈال رہے ہیں تو ہم نے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی سے اس حوالے سے بات کی تھی لیکن انہوں نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا تھا کہ دباؤ نہیں لیا جائے گا۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ حکومت مطمئن ہے کہ مشکل فیصلے کرلیے، اب معیشت بہتر سمت میں جارہی ہے، حکومت کا دعویٰ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ میں 73فیصد کمی آئی ہے، ریونیو بڑھ رہا ہے جولائی سے اگست کے درمیان 580ارب روپے ٹیکس جمع ہوا۔ سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ وزیراعظم آفس سے 27وزارتوں کو ریڈ لیٹر جاری ہونے کی بات ٹھیک ہے، بیوروکریسی کے کام نہ کرنے اور بیوروکریسی اور وزراء کے توازن نہ ہونے کی شکایات تھیں، وفاقی کابینہ میں پورٹ فولیو واپس لینے یا تبدیل کرنے کی خبریں درست ہیں،وزیراعظم اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد واپس آکر اس حوالے سے قدم اٹھائیں گے، وفاقی کابینہ میں جھاڑو پھرے گی یا کم تبدیلیاں ہوں گی، عمران خان بہت سارے لوگوں سے ناخوش ہیں، وہ گینگز آف کراچی سے ناخوش ہیں، اس کے علاوہ گینگز آف اَن الیکٹڈبھی بڑا ایشو ہے جس میں چھ وزارتیں آتی ہیں۔ ارشاد بھٹی نے کہا کہ صنعتکاروں کا ٹیکس معاف کرنے سے متعلق معاملہ کی حیرت انگیز اطلاعات آرہی ہیں، وزیراعظم کو بالکل دوسری کہانی سنائی گئی ،اس معاملہ کو نہ پارلیمنٹ میں جانے دیا ، نہ وزارت قانون و انصاف سے رائے لی گئی بلکہ بلڈوز کر کے آرڈیننس لایا گیا،مراد سعید اور فیصل واوڈا نے آواز اٹھائی تو وزیراعظم کو حقیقت پتا چلی، یہ رزاق داؤد، ندیم بابر ، چند بیوروکریٹس اور چند سیٹھوں کا گٹھ جوڑ تھا۔ وزیراعظم سے ملاقات کے حوالے سے ارشاد بھٹی نے بتایا کہ وزیراعظم سے ملاقات میں انہیں بتایا کہ جہاں چھاپے نہیں پڑرہے وہاں روٹی اٹھارہ روپے کی ہے، ادرک پانچ سو روپے اور پیاز سو روپے کلو ہوگئی ہے، گنا 180روپے من ہے جبکہ چینی 85روپے کلو مل رہی ہے، میں نے انہیں کہا کہ یہ تو آپ کے اپنے لوگ ہیں، بہت سے معاملات آپ صرف گورننس سے بہتر کرسکتے تھے ،وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسد عمر نے کیا کھیلا، اسد عمر کو میں نے کہا کہ ملک کے اصل مسائل قوم کو بتاؤ تو انہوں نے کہا کہ panic پھیل جائے گا، عمران خان کہہ رہے تھے کہ مشکل صورتحال سے نکل چکے ہیں یہ سال معیشت کا ہوگا، میں نے ان سے عثمان بزدار کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ ایماندار آدمی ہے جس پر میں نے کہا کہ ایمانداری اور ڈیلیور کرنا مختلف چیزیں ہیں، میں بھی ایماندار ہوں لیکن اچھا مینجر نہیں تو کیسے مینج کرسکوں گا۔ ارشاد بھٹی نے کہا کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں نواز شریف کے دور کے لوگ ہی بیٹھے ہوئے ہیں، وزیراعظم ٹیم سے متعلق فیصلے پر پہنچ گئے ہیں، عمران خان کہہ رہے تھے کہ میں فائٹ بیک کروں گا، اگلے چھ مہینے میں دیکھو ہم کیا کررہے ہیں، وزیراعظم کو کہا کہ آپ ایک دن مانیں گے کہ میں نے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنا کر غلطی کی، وزیراعظم نے کہا کہ ارشاد تم سمجھ نہیں رہے جو میں دیکھ رہا ہوں، میں نے انہیں کہا کہ آپ وزیراعظم سیکرٹریٹ سے دیکھ رہے ہیں ہم گلیوں محلوں سے دیکھ رہے ہیں، پنجاب میں لوگ رونے کیلئے سر ڈھونڈ رہے ہیں، پنجاب میں چھ حکومتیں چل رہی ہیں اس کا کچھ کریں۔ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ پنجاب کا ہر وزیر روتا ہے کہ جب وزیراعلیٰ سے ملنے جائیں تو لگتا ہے تاریک کمرے میں داخل ہوگئے، ہم بھی بھول جاتے ہیں کہ کوئی آئیڈیا لے کر گئے ہیں، پنجاب میں فنکاروں کے وظیفے تک بند ہوگئے ہیں، پنجاب میں ایک روبوٹ قسم کا آدمی چل پھر رہا ہے۔

تازہ ترین