• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا، طالبان معاہدہ اور افغانستان کا مستقبل

امریکا، طالبان معاہدہ اور افغانستان کا مستقبل
قطر کے دارالحکومت، دوحا میں منعقدہ امریکا، طالبان مذاکرات کا ایک منظر

قطر کے دارالحکومت، دوحا میں جاری امریکا، طالبان مذاکرات کا نواں دَور نتیجہ خیز ثابت ہوا۔گرچہ امریکی وزیرِ خارجہ،مائیک پومپیو نے معاہدے پر دستخط سے انکار کردیا ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عن قریب ہی افغانستان میں امن قائم ہونے والا ہے۔ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد بھی امریکی فوج افغانستان میں موجود رہے گی۔ گرچہ امریکی صدر کا یہ بیان طالبان کے مؤقف کے بر خلاف ہے، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ جیسے سیماب صفت لیڈر نے افغان امن عمل میں پیش رفت کے لیے خاصی سنجیدگی اور بُرد باری کا مظاہرہ کیا۔ نیز، افغانستان سے امریکی فوج کی مرحلہ وار واپسی اور وہاں قیامِ امن کو ٹرمپ کی کام یابی سے تعبیر کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ اگلے برس امریکا میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور ٹرمپ کی یہ خواہش ہو گی کہ الیکشن سے قبل ہی طالبان، شمالی کوریا اور ایران سے معاملات طے پا جائیں، تاکہ وہ خود کو ایک امن پسند رہنما کے طور پر پیش کر سکیں۔ دوسری جانب افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا آغاز طالبان کی فتح بھی ہو گی ، کیوں کہ وہ دُنیا کو یہ باور کروا سکیں گے کہ وہ 18سالہ جدوجہد کے بعد امریکی فوج کو اپنی سر زمین چھوڑدینے پر مجبور کرنے میں کام یاب ہو گئے۔ تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا، طالبان معاہدے کے بعد افغانستان کا مستقبل کیا ہو گا، جہاں رواں ماہ کے آخر میں صدارتی انتخابات متوقّع ہیں۔ نیز، امریکی افواج کی مرحلہ وار واپسی سے پاکستان پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے، جہاں اس وقت بھی 30لاکھ سے زاید افغان مہاجرین مقیم ہیں اور پاک فوج دونوں ممالک کے درمیان واقع 2200کلو میٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے میں مصروف ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ افغان امن عمل میں چین، رُوس، بھارت اور ایران سمیت عرب ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں اور یہ تمام فریقین ہر ممکن حد تک اپنے مفادات کا تحفّظ کرنا چاہیں گے۔ یاد رہے کہ امریکا، طالبان مذاکرات کی میزبانی بھی ایک عرب مُلک، قطر کر رہا ہے۔

امریکا، طالبان معاہدہ اور افغانستان کا مستقبل
امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ

امریکا، طالبان مذاکرات کے نویں دَور میں فریقین نے کئی اہم نکات پر اتفاق کیا۔ امریکا کے نمایندۂ خصوصی برائے افغان امن عمل، زلمے خلیل زاد کے مطابق، امریکی صدر کی جانب سے معاہدے کی توثیق کے بعد 5اہم فوجی اڈّوں سے 135روز میں 5ہزار امریکی سپاہیوں کا انخلا ہو گا۔ اس وقت افغانستان میں کُل 14ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں، جو افغان آرمی کی معاونت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ڈرون طیّاروں سے بھی مدد حاصل کی جاتی ہے، جن کا تدارک سرِ دست طالبان کے بس کی بات نہیں۔ واضح رہے کہ انہی ڈرون طیّاروں نے پاکستانی طالبان کی قیادت کا صفایا کیا، جب کہ عمران خان ڈرون حملوں کے شدید مخالف تھے۔ معاہدے کی رُو سے طالبان نے افغانستان میں امریکی انٹیلی جینس کی موجودگی برقرار رکھنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ یاد رہے کہ اوباما دَور میں بھی نیٹو اور امریکی فورسز کا افغانستان سے انخلا ہوا تھا، لیکن بعدازاں پُر تشدّد واقعات میں اضافے کے بعد اُسی دَور میں مزید کمک کابل بھیج دی گئی تھی۔ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعدنہ صرف افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ کیا، بلکہ جنگ کی شدّت میں بھی تیزی آئی۔ امریکا کی افغان پالیسی پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ حکمتِ عملی طالبان کو مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے اپنائی گئی تھی۔ گو کہ اس کے ردِ عمل میں طالبان کی کارروائیوں میں بھی شدّت آئی، لیکن کچھ عرصے بعد وہ بھی جنگ کی بہ جائے مذاکرات کو مسئلے کا حل گرداننے لگے۔ اس مرحلے پر پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وائٹ ہائوس میں عمران خان سے ملاقات کے موقعے پر ٹرمپ نے گرم جوشی کا مظاہرہ کیا، جب کہ اس سے قبل وہ پاکستان کو افغانستان میں عدم استحکام کا ذمّے دار قرار دیتے تھے۔ نیز، ایک موقعے پر انہوں نے عمران خان کو اپنا اچھا دوست بھی قرار دیا، جو ماضی میں امریکا کی افغان پالیسی پر شدید تنقید کرتے تھے اور انہوں نے نیٹو رسد روکنے کے لیے دھرنا دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ چناں چہ پاک، امریکا تعلقات کو ’’رولر کوسٹر‘‘ سے تشبیہ دینا غلط ہو گا۔

امریکا، طالبان معاہدہ اور افغانستان کا مستقبل
امریکی افواج افغان صوبے، لوگر میں گشت کرتے ہوئے

 امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کے بعد اگلا مرحلہ بین الافغان مذاکرات ہیں۔ یہ مرحلہ اس اعتبار سے خاصا پیچیدہ لگتا ہے کہ اس وقت دُنیا بھر میں بیرونی دشمنوں سے مفاہمت اور داخلی حریفوں سے مخاصمت کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ اگر اگلے مرحلے میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت کی بات کی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ فریقِ ثانی، واشنگٹن اور اسلام آباد کی تمام تر کوششوں کے باوجود فریقِ اوّل کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان نے افغان حکومت کو قطر، رُوس اور چین سمیت دوسرے ممالک میں مذاکرات کا حصّہ نہیں بننے دیا۔ اس موقعے پر ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست اور امریکی فوج کے انخلا کے بعد وہاں خانہ جنگی شروع ہو ئی تھی ۔ اس دوران مقامی وار لارڈز نے سوویت یونین اور افغان مجاہدین کے درمیان جنگ سے کہیں زیادہ لہو بہایا۔ نتیجتاً، 1990ء کی دہائی میں طالبان کے سربراہ، مُلاّ عُمر کی قیادت میں اماراتِ اسلامیہ افغانستان کا قیام عمل میں آیا، جو سانحۂ نائن الیون کے بعد کابل پر غیر ملکی افواج کے قبضے کے سبب ختم ہوئی۔ چوں کہ اب ایک مرتبہ پھر امریکی افواج افغانستان سے روانہ ہو رہی ہیں، تو ماضی میں ہونے والی شدید خوں ریزی سے بچنے کے لیے تمام افغان رہنمائوں کے درمیان مفاہمت ناگزیر ہے اور اسے افغان رہنمائوں اور عوام کے لیے ایک کڑی آزمایش قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب طالبان اور افغانستان کے دیگر دھڑوں کے درمیان شراکتِ اقتدار کا فارمولا طے ہونا ہے۔ اس ضمن میں حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ طالبان بار ہا اس اَمر کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ بلا شرکت غیرے حکم رانی کے خواہش مند نہیں اور افغانستان کی ترقّی کی خاطر اقتدار میں شراکت پر آمادہ ہیں۔

امریکا، طالبان معاہدہ اور افغانستان کا مستقبل
زلمے خلیل زاد اور شاہ محمود قریشی

دوسری جانب امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتِ حال پاکستان کے لیے بھی خاصی ہنگامہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر بین الافغان مذاکرات کام یاب نہیں ہوتے اور فریقین کے درمیان شراکتِ اقتدار کاکوئی فارمولا طے نہیں پاتا، تو دوحا مذاکرات سمیت مفاہمت کی تمام تر کوششیں افادیت کھو دیں گی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ گرچہ پاکستان نے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا، لیکن امریکا سے معاہدے کے بعد طالبان کا رویّہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ نیز، اس وقت افغانستان میں بھارت، رُوس اور چین متحرک ہو چکے ہیں ، جب کہ ایران بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ یاد رہے کہ پاکستان کے راستے بھارتی تجارت بند ہونے پر ایران نے چاہ بہار پورٹ کی صورت اسے راستہ فراہم کیا اور چاہ بہاربندرگاہ سے کابل تک ایک سڑک بھی تعمیر کی جا رہی ہے۔ اگر امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں عدم استحکام بڑھتا ہے، تو پاکستان کی مغربی سرحد پر بھی اس کی تپش محسوس ہو گی، جب کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کے باعث مشرقی سرحد پہلے ہی اس حد تک گرم ہو چکی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حالات میں پاکستان کو مغربی و مشرقی دونوں سرحدوں پر کڑی نگاہ رکھنا ہو گی۔ پھر بھارت، افغانستان میں اہم کردار کا طالب بھی ہے اور افغان حکومت پر اس کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس کے پاکستان مخالف بیانات سے لگایا جا سکتا ہے، جب کہ افغان عوام کے بھارت کی جانب جھکائو کا مظاہرہ تو ہم حالیہ کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران دیکھ ہی چکے ہیں۔

امریکا، طالبان معاہدہ اور افغانستان کا مستقبل
امریکا کے نمایندۂ خصوصی برائے افغان امن عمل کی ڈاکٹر اشرف غنی سے ملاقات

 درحقیقت، افغانستان کی تباہی کا ذمّے دار رُوس ہے، جس کی مُہم جوئی نے افغان عوام کو جہاد پر مجبور کیا، تاکہ وہ سوویت یونین کی حمایت یافتہ کمیونسٹ حکومت سے نجات حاصل کر سکیں، جب کہ پاکستان اور امریکا نے بعد میں افغانستان میں مداخلت کی۔ تاہم، پاکستان کو اپنے افغان بھائیوں کی مدد کی بھاری قیمت دہائیوں بعد بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ افغان جنگ میں شمولیت کے نتیجے میں پاکستان میں نہ صرف کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر عام ہوا، بلکہ اسے تقریباً 30لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑا۔ ان مہاجرین کی اپنے مُلک واپسی افغانستان کی سیاست اور پاک، افغان تعلقات پر بھی اثر انداز ہو گی۔ گرچہ گزشتہ چند برسوں سے رُوس افغان امن عمل میں اپنا حصّہ ڈال رہا ہے، لیکن اس کے اسلامی ممالک اور مسلمانوں سے روابط کا اندازہ سقوطِ ڈھاکا میں اس کے کردار سے لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ماضی میں رُوس نے وسطی ایشیا کی اسلامی ریاستوں کو اپنا محکوم بنا کر اُن کے وسائل ہڑپ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور اس کی جانب سے وہاں عاید کی گئی مذہبی پابندیاں بھی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ مزید برآں، شام میں جاری خانہ جنگی میں بھی رُوس کا کردار نہایت بھیانک رہا۔ لہٰذا، طالبان اور افغان عوام اس سے کوئی اچھی امید نہ رکھنے میں حق بہ جانب ہوں گے۔

چین اس وقت نہ صرف دُنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہے، بلکہ دفاعی میدان میں بھی اپنا ایک مقام بنا چکا ہے۔ تاہم، اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چینی صدر، شی جِن پِنگ زندگی بھر کے لیے صدر منتخب ہو چکے ہیں اور انہوں نے چین کے سب سے مقتدر رہنما کے طور پر ’’ون بیلٹ ، ون روڈ‘‘ جیسے تاریخی منصوبے کی صورت خطّے میں نئی تبدیلیوں کی بنیاد رکھی۔اس منصوبے کے تحت پاک، چین اقتصادی راہ داری، جس کا ابتدائی تخمینہ 60ارب ڈالرز لگایا گیا ہے، جیسی 7تجارتی راہ داریاں تعمیر کی جائیں گی، جو ایک جانب چین کو یورپ سے ملائیں گی، تو دوسری جانب امریکا اور آسٹریلیا سے۔ غالباً تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ چین نے سرحد پار اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کے لیے حکمتِ عملی تشکیل دی ہے اور یہ بین الاقومی امور میں کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ لہٰذا، کیا چین یہ برداشت کر سکتا ہے کہ اس کی سرحد پر واقع، افغانستان میں عدم استحکام برقرار رہے، جب کہ خود اس کے صوبے، سنکیانگ کی صورتِ حال انتہائی حسّاس ہے۔ نیز، چین یہ بھی نہیں چاہے گا کہ اس کے پڑوس میں طالبان کی سخت گیر حکومت دوبارہ قائم ہو۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر طالبان لچک نہیں دکھاتے، تو پھر عالمی طاقتیں افغانستان میں ایرانی ماڈل کے اطلاق کے حق میں ہوں گی، لیکن ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے کے حشر کو دیکھتے ہوئے شاید یہ منصوبہ قابلِ قبول نہ ہو، کیوں کہ غیر معمولی سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقّی امن کی متقاضی ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان، چین یا رُوس کے ’’زون آف انفلوئنس‘‘ میں آتا ہے ۔

اقوامِ عالم کے درمیان معاشی روابط جذبات سے بالاتر ہوتے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں حالیہ تجربے نے ہم پر یہ حقیقت اچھی طرح آشکار کر دی ہے، لیکن دوسرے ممالک کو اپنا دشمن بنانے سے بہتر ہے کہ ایسی خارجہ پالیسی ترتیب دی جائے کہ جس کی بہ دولت اچانک پیدا ہونے والی خطرناک صورتِ حال کا تدارک کیا جا سکے یا اس سے ہونے والے نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور مذاکرات کے ذریعے ہی تنازعات کا خاتمہ ممکن ہے۔ گرچہ یہ ایک خوش گوار تبدیلی ہے، لیکن اس کے مُلک و قوم پر اثرات پر بھی توجّہ دینا ہو گی۔ یاد رہے کہ جب سوویت یونین، افغانستان میں برسرِ پیکار تھا، تو تب امریکا جیسی سُپر پاور کی پُشت پناہی کے باعث پاکستان بھی اس جنگ میں پوری طرح ملوّث تھا۔ تاہم، اس موقعے پر افغانستان کا ایک اور پڑوسی مُلک، چین سَر نیہوڑائے ڈنگ ژیائو پھنگ کی قیادت میں ترقّی کے اُس سفر کے شروعات کر رہا تھا کہ جس کے پہلے مرحلے کی تکمیل پر وہ دُنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت بن چکا ہے، جب کہ دوسرے مرحلے کی تکمیل پر، جو 2050ء میں متوقّع ہے، وہ سُپر پاور بن چکا ہو گا۔ گرچہ پاکستان، بھارت، بنگلا دیش اور افغانستان، چین کے قریب واقع ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممالک مستقبل کی سُپر پاور سے سبق بھی حاصل کرپائیں گے یا نہیں؟

تازہ ترین