• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محرم الحرام کی دس تاریخ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ہی نہیں، انسانیت کی اعلیٰ و ارفع قدروں کا ادراک رکھنے والے تمام افراد کو اس پیغام کی طرف متوجہ کرانے کا صدیوں سے ذریعہ بنی رہی ہے جو صحرائے کربلا کی خاک کے ہر ذرّے سے آتا محسوس ہوتا ہے: ’’کفر اور باطل ترک کرو،حق کو مان لو، فلاح کا راستہ اختیار کرو‘‘۔ یہ الفاظ اس دعوت کے ہیں جو نواسہِ رسولؐ حضرت امام حسینؓ نے ہجرت نبویؐ کے 61ویں برس اسی تاریخ کو اتمام حجت کے لئے ان لشکریوں سے خطاب کرتے ہوئے دی جو ان کے خون کے پیاسے بنے ہوئے تھے۔ اس پیغام نے مقام کربلا کی خاک کو ان سب کے لئے خاک شفا بنادیا جو اس خاک سے آنے والے پیغام کو سن رہے اور نور کے ان آفتابوں سے علم و حکمت کی روشنی حاصل کررہے ہیں جنہیں ریگ کربلا نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ سال 61ہجری میں 2؍محرم کو آنے والے قافلے کے شب و روز اور اس پر توڑے جانے والے مظالم کا مشاہدہ کرنے والے اس مقام ’’کربلا‘‘ کے نام کو امام عالی مقام، ان کے رفقائے قافلہ اور آخری وقت میں لشکر اعدا میں سے آکر حسینی قافلے میں شمولیت کی سعادت حاصل کرنے والے حُر کی شہادت نے وہ مرتبہ دیا کہ لفظ ’’کربلا‘‘ ظلم و جور اور باطل کے خلاف جدوجہد کا استعارہ بن گیا۔ جبکہ دس محرم کی تاریخ کو، جسے ’’یوم عاشور‘‘ کہتے ہیں، وہ وسعت مل گئی جو متعدد زمانوں پر بھاری ہے۔ کربلا کی سرزمین ہی کا یہ حوصلہ ہے کہ اس نے جور و ستم کی اس انتہا کا مشاہدہ کیا جس کے کسی ایک پہلو کے ذکر سے ہی ہر صاحب دل کا سینہ شق ہوا جاتا ہے۔ مگر اس غم میں جو قوتِ ایمانی پنہاں ہے اسے نواسہ رسولؐ کے اس اسوہ کا صدقہ کہا جاسکتا ہے جس نے موت، مرگ اور فنا کے لفظوں کے معانی یکسر بدل دئیے۔ حضرت امام حسینؓ نے جو سفر تخت نشین ہونے والے فرد کے مطالبہ بیعت اور اپنے انکار کے بعد مدینہ منورہ کو قتل و خون سے بچانے کیلئے شروع کیا، بعدازاں حرم کعبہ کی حرمت کو وہاں بھی موجود قاتلوں کے باعث درپیش خطرے سے بچانے کیلئے حج کو عمرہ میں تبدیل کرکے مکہ مکرمہ سے باہر آکر آگے جاری رکھا وہ سفر بظاہر یوم عاشور اس وقت اختتام کو پہنچ گیا جب کربلا کی ریت نے قافلے میں شامل نفوس قدسیہ کے لاشوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا اور نوجوانانِ جنت کی سرداری کے منصب کی بشارت پانے والی دو پاکیزہ ہستیوں میں سے ایک کا سر نیزے پر بلند کردیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ سفر آج تقریباً پونے چودہ سو برس بعد بھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حق و باطل اور ظالم و مظلوم کے معرکے مختلف صورتوں اور انداز میں برپا ہوتے رہیں گے۔ امام حسینؓ اور ان کے رفقا کوراہ حق سے ہٹانے کی جو کوششیں کی گئیں انہیں ناکام ہونا ہی تھا،نواسہِ رسول کو قتل کرنے کی سازش کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی مقامات پر سامنے آنے والے عوامی ردّعمل اور یزید کی موت کے بعد اس کے بیٹے معاویہ نے تختِ شاہی پر بیٹھنے سے انکار کرتے ہوئے جو خطبہ دیا، اس سے فتح کا جھوٹا تاثر مزید دھندلا ہوگیا۔ امام عالی مقام چاہتے تو ان کے اشارہ ابرو پر ہزاروں افراد کٹ مرنے کے لئے تیار ہوجاتے اور دنیا کی ہر نعمت دستیاب ہوجاتی۔ مگر لگتا یوں ہے کہ مظلومیت کی انتہائی کیفیت میں استقامت کی انتہائی بلندیوں کا مظاہرہ جہدِ حق کی مختلف منزلوں اور مرحلوں میں امت کی تربیت کی ضرورت تھی کیونکہ کربلا ایک مسلسل عمل ہے۔ آج امت مسلمہ کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے ان کا تقاضا ہے کہ مسلم حکمراں باہم سرجوڑ کر بیٹھیں اس دور کے کرب و بلا کا تجزیہ کریں اور قیادت کا ارفع معیار پیش کریں۔ مسلم ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کو فعال و متحرک کرکے اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کیلئے سرگرم کردار ادا کرکے امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والے حکمراں دنیا کے تمام مظلوموں کی موثر آواز بن سکتے ہیں۔

تازہ ترین