• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فسق و فجور میں لت پت یزید نے اقتدار کی خاطر محبوبِ خدا حضرت محمدﷺ کے بہت لاڈلے نواسے حضرت امام حسینؓ اور اُن کے رفقا کو میدانِ کربلا میں لشکرِ شمر کے ذریعے شہید کرا دیا تھا۔ یہ معرکہ ہماری تاریخ اور ادب میں بےمثال عزیمت اور عظیم المرتبت استقامت کا ایک زندہ استعارہ بن گیا ہے۔ شہدائے کربلا پر پانی بند کر دیا گیا اور اُن کو یزیدی لشکر نے کئی روز تک محصور کیے رکھا تھا مگر وہ اسلام کے آفاقی اصولوں پر ڈٹے رہے اور خلافت کی عظمت قائم رکھنے کے لئے پورے خاندان اور مخلص ساتھیوں کی قربانی دی۔ یہی قربانی عالمِ انسانیت کو حیاتِ ابدی کا پیغام دیتی ہے اور مولانا محمد علی جوہر کے ایک مصرع کی طرح ضرب المثل بن گئی ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ امام عالی مقامؓ اپنی شہادتِ عظمیٰ کی بدولت انسانی تاریخ میں زندہ ہیں جبکہ یزید کا نام بدترین ظلم و جبر کی علامت بن چکا ہے جو مختلف زمانوں اور علاقوں میں گاہے گاہے سر اُٹھاتا رہتا ہے۔ آج کل وہ بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جس نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ اِس میں انسانی بنیادی حقوق نہایت بےرحمی سے پامال کیے جا رہے ہیں۔ تمام ہولناک اذیتوں اور کڑی آزمائشوں کے باوجود کشمیری عوام بھارت کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے پُرعزم ہیں اور آٹھ لاکھ غاصب فوجیوں کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔

5؍اگست کو فاشسٹ نریندر مودی نے کشمیریوں کا تشخص ختم اور آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے جو غیرآئینی اور وحشیانہ اقدامات کیے ہیں، اُنہوں نے پوری وادی میں کرب و بلاکی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ کشمیر میں وہی شیطانی کھیل شروع ہو گیا ہے جو فلسطین میں یہودی سالہا سال سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اِس المناک سانحے پر پاکستان کے اندر اسی قسم کا اضطراب دیکھنے میں آ رہا ہے جو سقوطِ پاکستان کے بعد ہمارے قومی وجود میں سرایت کر گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پوری قوت سے اپنے کشمیری بھائیوں کی آواز بن کر ہر بین الاقوامی فورم پر دستک دے رہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نسل کشی کا عمل فوری طور پر رکوایا جائے اور 5؍اگست سے پہلے والی پوزیشن بحال کرائی جائے۔ وزیرِاعظم عمران خان غالباً ملکی حالات کی وجہ سے بیرونی دورے پر تو نہیں جا سکے، تاہم وہ عالمی طاقتوں کو صورتحال کی سنگینی کا احساس دلانے کے لئے ٹیلی فون ڈپلومیسی سے مؤثر انداز میں کام لے رہے ہیں۔ امریکی صدر سے اِس نازک مسئلے پر بار بار بات چیت ہوئی۔ ملائیشیا، ترکی، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں سے طویل گفتگوئیں ہوئیں جن کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں۔ وہ آج مظفر آباد میں بہت بڑے جلسے سے خطاب کرنے والے اور اِس تاثر کو گہرا کرنے والے ہیں کہ پاکستان پوری استقامت کے ساتھ مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ اِسی طرح ہمارے وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی بھی بڑے فعال نظر آتے ہیں۔ اُنہوں نے اہم ملکوں کے وزرائے خارجہ کے ساتھ رابطے قائم رکھے ہوئے ہیں اور انھیں مقبوضہ کشمیر میں بگڑتے ہوئے حالات سے تسلسل کے ساتھ مطلع کرتے آئے ہیں۔ وہ بیجنگ گئے اور باہمی گفت و شنید کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ چینی قیادت نے مسئلہ کشمیر کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔

یہ بھی پاکستانی اور کشمیری قیادت کی مشترکہ کاوشوں کا ثمر ہے کہ نیویارک، لندن اور پیرس میں کشمیریوں اور پاکستانیوں کے بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں وزیرِاعظم آزاد جموں و کشمیر جناب راجہ محمد فاروق حیدر نے نہایت فعال کردار ادا کیا ہے۔ اِن مظاہروں سے متاثر ہو کر مغربی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم بےنقاب کرتے ہوئے بھارتی حکومت پر زور دے رہا ہے کہ وہ کرفیو ختم کر کے کشمیریوں کو بولنے کا موقع دے اور بنیادی انسانی حقوق کا پورا پورا اِحترام کرے۔ حال ہی میں جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا اجلاس ہوا جس سے وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی نے خطاب کیا۔ اُنہوں نے کمال مہارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی مکمل تصویر کشی کی اور تفصیل سے بتایا کہ بھارت وحشت اور بربریت کی ہر حد عبور کر چکا ہے اور نسل کشی کا عمل تیزی سے جاری ہے جس کی روک تھام کے لئے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ یہ امر کسی قدر اطمینان بخش ہے کہ اٹھاون ممالک پر مشتمل اِس کونسل نے بھارت سے پانچ مطالبات کیے ہیں جو پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ طویل عرصے کے بعد عالمی رائےعامہ تنازع کشمیر کی طرف متوجہ ہو رہی ہے۔

بعض حلقے شاید غیر ارادی طور پر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پاکستان نے مشکل کی گھڑی میں کشمیریوں کی کوئی قابلِ ذکر مدد نہیں کی۔ اِس تاثر کے پھیلنے سے کشمیری برادری کے ایک حصے میں مایوسی پیدا ہو سکتی ہے۔ بلاشبہ ایک اچھی منصوبہ بندی اور متوازن حکمتِ عملی سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اِس کے لئے جذباتی اُبھار کے بجائے حکیمانہ طریقِ کار اختیار کرنا مفید رہے گا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پنجاب یونیورسٹی، تھنک ٹینک پائنا اور متحدہ علما کونسل ستمبر کے آخری عشرے میں کشمیر قومی کانفرنس منعقد کر رہے ہیں جس میں پورے پاکستان سے اہلِ دانش، اہلِ قلم، اربابِ صحافت، وکلا اور علما شریک ہو رہے ہیں۔ وزیرِاعظم آزاد جموں و کشمیر کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی شرکت بھی متوقع ہے۔ اِس کانفرنس سے مودی سرکار اور عالمی برادری کو ایک متفقہ اور جچا تلا پیغام دیا جائے گا۔ دوسری مجوزہ قومی کانفرنس میں ایک ہمہ پہلو اور جامع کشمیر پالیسی کے خدوخال زیرِبحث آئیں گے اور خارجہ، دفاع، معیشت اور قانون کے ماہرین مقبوضہ کشمیر میں بدترین انسانی المیے کی روک تھام کے لئے قابلِ عمل تجاویز پیش کریں گے۔ اِس پورے عمل میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہو گا اور اِس میں کامیابی کے لئے سیاسی اور معاشی استحکام ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔

تازہ ترین