• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ کے اخبار آبزرور نے خبر دی ہے کہ برطانیہ میں سمگل شدہ خواتین کی نیلامی کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بیرون ملک سے خواتین کی سمگلنگ کے خلاف وسیع پیمانے پر کئے جانے والے آپریشن میں یہ روح فرسا انکشاف ہوا ہے کہ ان میں سے بعض کو نیلامی کے ذریعے فروخت کیا گیا ہے۔ کیمبرج شائر میں پولیس نے 73 مشتبہ جسم فروش اڈوں پر چھاپے مارے سات خواتین کو پہلے ہی برآمد کیا جاچکا ہے۔ ان میں کچھ تو بہت زیادہ زخمی بھی تھیں۔ عورتوں کے نازک جسم پر زخموں کے یہ تحفے قحبہ خانوں سے فراریت کی ناکامی کا تحفہ تھا۔
آج کے مہذب معاشرہ میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والا گھناؤنا سلوک، ہیبت ناک، شرمناک اور خوفناک ہے۔ سمگل شدہ خواتین کاجبری استحصال اور جسم فروشی کا دھندا گاؤں سے بڑے شہروں تک پھیلا ہوا ہے۔ انہیں کمرے سے باہر جھانکے کی آزادی تک نہیں ہوتی اور ایک دن میں قریباً 50 سے ساٹھ افراد کی ہوس پوری کرتی ہیں جس سے سمگلنگ میں ملوث افراد کو ہزاروں پونڈ کی آمدن ہوتی ہے۔ برطانیہ کے وزیر داخلہ نے پولیس فورسز اور سیریس و آرگنائزڈ کرائم برانچ (سوکا) کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس جرم کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر لائیں کہ ہزاروں بچوں اور عورتوں کو جدید غلامی میں فروخت کیا جارہا ہے۔ میرے ھساب سے یہ سب مشرقی یورپ سے درآمد شدہ ہے۔ مشرقی یورپ کے جرائم پیشہ افراد اسے مغربی یورپ میں لے آتے ہیں۔ بالخصوص برطانیہ میں جہاں یہ جرم اس قدر بڑے پیمانے پر ہے کہ پولیس اور سوکا اپنے ایک چوتھائی وسائل سٹریٹ کرائمز اورعورتوں کی سمگلنگ سے نمٹنے پر خرچ کر رہے ہیں۔ حکومت نے جنسی تجارت کیلئے انسانی سمگلنگ کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا ہوا ہے جس کا نام ”پنیٹا میٹر2“ ہے اس کوڈ نام سے شروع کئے جانے والے آپریشن کا مقصد خواتین اور بچوں کو جنسی تجارت کیلئے مجبور کرنے والے گروہوں کے سرغنوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ اس گھناؤنے کاروبار کا شکار ہونے والوں کی مدد اور اس مسئلے کے حوالے سے عوامی آگاہی بڑھانا، برطانیہ میں پیدا ہونے والے بچوں کی فروخت کے مسائل اور اس سے منسلک مجرم گروہوں کی نشاندہی کرنا ہے۔
گزشتہ برس بھی اس طرز کاچار ماہ پر محیط آپریشن شروع کیا گیا تھا جس میں 135 افراد پر انسانی سمگلنگ سمیت دیگر الزامات میں فرد جرم عائدکی گئی تھی جبکہ 500 قحبہ خانوں مساجد پارلروں، گھروں اور دیگر جگہوں سے 90 کے قریب عورتوں لڑکیوں کو بازیاب کرایا گیا تھا۔ ان میں سے نصف کے لگ بھگ خواتین مشرقی یورپ، مشرقی بعید اور جنوبی امریکہ سے آئی تھیں۔ اس آپریشن کے نتیجہ میں ایک مستقل یونٹ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ جس کے تحت سوکا کے افسران اور پراسیکیوٹر کو اب اسلحہ اور منشیات سے جسم فروشی میں تبدیل ہوتا دیکھ رہے ہیں اور ان گروہوں کے چنگل میں پھنسی خواتین کا اس دلدل سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ نیلام ہونے والی عورت کے ساتھ ایک نگران ہوتا ہے مختلف گروہوں کے لوگ جانوروں کی طرح اس کا جائزہ لیتے ہیں پھر بولی شروع ہوتی ہے اور بعض اوقات تو یہ بولی کی رقم بے حد معمولی یعنی ایک ہزار یورو ہوتی ہے۔ (یاد رہے کہ ہالینڈ میں کم سے کم گزارہ الاؤنس ایک ہزار یورو کے لگ بھگ ہے) مغربی یورپ اور برطانیہ لائی جانے والی زیادہ تر خواتین مشرقی یورپ، افریقہ اور مشرقی بعید سے تعلق رکھتی ہیں۔ جنہیں سوشلزم کی چھتر چھاؤں سے نکالنے کے بعد بہتر زندگی اور روزگار کا جھانسا دیا جاتا ہے۔ لیکن مغربی یورپ پہنچنے کے بعد ن سے پاسپورٹ اور دوسری تمام دستاویزات لے لی جاتی ہیں اور پھر اکثر ان کو نہایت غلیظ مکانوں میں رکھا جاتا ہے۔ بعد میں ان کو نیلام گھروں میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان علاقوں سے حالیہ سمگل شدہ دس ہزار عورتوں کو برطانیہ فی کس ڈھائی ہزار پونڈ کے عوض منظم گروہوں کو فروخت کیا گیا ہے اور اس وقت وہ جنسی غلامی میں بندھی ہوئی ہیں۔ جرائم پیشہ سنڈیکیٹ نے نامعلوم تعداد میں عورتوں اور بچوں کو پانچ سے دس ہزار پونڈ کے عوض بانڈڈ لیبر میں فروخت کردیا ہے۔ ادھر ایک رپورٹ کے مطابق پولینڈ اور رومانیہ سے تارکین وطن کے سیلاب کی وجہ سے یورپ اورباالخصوص برطانیہ میں جرائم میں خوفناک اضافہ ہوگیا ہے۔ اس سے برطانیہ کے ہوم آفس اور پولیس کے یہ خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں کہ جرائم پیشہ افراد پولینڈ اور رومانیہ سے لندن منتقل ہورہے ہیں۔ پولیس کو تشویش ہے کہ جرائم پیشہ افراد دس سال سے کم عمر کے بچوں کو استعال کر رہے ہیں۔ جن کے خلاف مقدمہ قائم نہیں کیا جاسکتا۔ جرائم کی یہ کمائی واپس رومانیہ بھیجی جارہی ہے۔ ادھر رومانیہ کی پولیس نے اعتراف کیا ہے کہ رومانیہ کے جرائم پیشہ لگ برطانیہ بھاگ گئے ہیں۔ (جیسے کچھ عرصہ قبل کیوبا سے جرائم پیشہ افراد امریکہ بھاگ آئے تھے) اور یہ لوگ جرائم سے جو کمائی کتے ہیں رقم رومانیہ کے بنکوں میں جاتی ہے۔ ان سے لگژری کاریں اور بنگلے خریدے جاتے ہیں رومانیہ کی پولیس انہیں ضبط کرنا چاہتی ہے لیکن شواہد کی عدم موجودگی میں ایسا نیہں کرسکتی۔ رومانیہ اور بلغراد سے 75 ہزار سے زیادہ جرائم پیشہ برطانیہ منتقل ہوچکے ہیں۔ حکام کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ سب جاننے کے باوجود انہیں ملک سے باہر رکھا جائے۔ لندن کے اخبار گارڈین کے مطابق حکومت جسم فروشی کے قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے تبادلہ خیالات کر رہی ہے۔ تاکہ جسم فروشی کیلئے معاوضہ دینے والے مردوں پر بھی مقدمات قائم کئے جاسکیں اور جسم فروشی کیلئے لائی جانے والی عورتوں کی سمگلنگ کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکا جاسکے۔ ایسوسی ایشن آف چیف پولیس آفیسرز کے پریذیڈنٹ نے مسئلے کو گھمبیر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں اضافہ ہورہا ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ اس کاروبار میں بھاری رقم حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے اس کو اخلاقی اور قانونی غلامی قرار دیا۔
میرے حساب سے جنسی تجارت کا یہ مسئلہ مغرب کا اپنا پیدا کیا ہوا ہے مشرقی یورپ میں سوشلزم کے ہوتے ہوئے وہاں ایک بھی ایسا جرم پیدا نہیں ہوا تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی جنسی تجارت بھی ہے سو اب مغرب کو تلخ سچائیوں کا سامنا کرنے، انہیں پہچان کر قبول کرنے اور پھر اسے نقصان دہ ہونے کا اعلان کرنے کاحوصلہ ہونا چاہئے۔

ہم نہ کہتے تھے نہ عاشق ہو اب اتنا تو بتا
جاکے ہم روتے ہیں، پہروں پسِ دیوار کہ تُو
تازہ ترین