• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے ہم حسب روایت گھومتے گھومتے شہزادی نادرہ بیگم کے مقبرے پر جا پہنچے۔ یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ لاہور کے لاکھوں شہریوں کو پتا ہی نہیں کہ شہزادی نادرہ بیگم کا مقبرہ کہاں ہے؟ اور یہ کون تھی؟ بلکہ یہ مقبرہ جس علاقے میں ہے، وہاں کے لوگوں کو بھی اس کا علم نہیں۔ لاہور کیا پورا پاکستان تاریخی ورثے کے حوالے سے بہت RICHہے۔ یقین کریں! اگر انگریز کے پاس اتنے تاریخی مقامات، عمارتیں، باغات اور حویلیاں ہوتیں تو ان کے ملک کا پورا بجٹ صرف سیاحوں کی آمد سے حاصل ہونے والی آمدنی سے چلتا۔ ہمارے ہاں تو ایک مدت سے والڈ سٹی اور محکمہ آثار قدیمہ کے درمیان سرد جنگ جاری ہے۔ والڈ سٹی کا محکمہ پہلے صرف اندرونِ لاہور کی پرانی حویلیوں، مکانات اور گلیوں تک محدود تھا۔ پھر اس نے شاہی قلعہ کے شیش محل اور دیگر تاریخی عمارات کو بھی اپنی تحویل میں لینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے حالانکہ محکمہ آثارِ قدیمہ تاریخی عمارتوں کی حفاظت کے حوالے سے محدود فنڈز میں جو کچھ کر رہا ہے، وہ کسی حد تک ٹھیک ہے۔ ہمارے ہاں تاریخی عمارتوں کو باقاعدہ پلاننگ کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے۔ قبضہ مافیا اور زمین مافیا غالباً اب اس انتظار میں ہیں کہ کب یہ عمارتیں خود بخود گر جائیں اور پھر یہاں پلاٹ بنا کر زمین فروخت کر دی جائے جبکہ حکومت بھی گھوڑے بیچ کر سوئی ہوئی ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں تاریخی عمارتیں اور مقامات ہیں، وہ سیاحت سے سالانہ کروڑوں ڈالرز کما رہے ہیں۔ سیاحوں کی آمد سے ایک نہیں کئی صنعتیں فروغ پاتی ہیں۔ سیاح جن ممالک میں جاتے ہیں وہاں سے لاکھوں ڈالرز کے سووینیئر خرید لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تاریخی مقامات کے قریب ریسٹورنٹس بناکر ان کی خوبصورتی کو خراب کیا جا رہا ہے۔ گھی، مسالوں اور آگ کی تپش سے ان تاریخی عمارتوں کا حسن ماند کیا جا رہا ہے۔ آج سے دس برس قبل جب ہم شہزادی نادرہ بیگم کے مقبرے پر گئے تھے تو اس وقت اس کی حالت کافی بہتر تھی، آج یہ عالم ہے کہ چھت تک جانے والی اینٹوں کی سیڑھیاں ٹوٹ چکی ہیں، اوپر جانے کے لئے بہت مشکل اور دقت پیش آئی بلکہ کئی دفعہ تو ہم گرتے گرتے بچے۔

شہزادی نادرہ بیگم دارالشکوہ کی اہلیہ تھیں۔ حضرت میاں میرؒ کے مزار مبارک پر اگر آپ انفنٹری روڈ سے داخل ہوں تو مزار مبارک کے قریب بائیں طرف ایک بڑی سی عمارت بلکہ بارہ دری ہے، جس کے درمیان قبر ہے، جہاں چرسی اور بھنگی پڑے رہتے ہیں۔ سکھوں نے اس عمارت کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس خوبصورت بارہ دری پر جس قدر سنگ مرمر تھا، مہاراجہ رنجیب سنگھ نے اکھاڑ لیا تھا۔ ہم بھی اس تاریخی عمارت کو تباہ کرنے پر لگے ہوئے ہیں، کسی خاص منصوبے کے تحت اس تاریخی عمارت سے چھوٹی اینٹیں اکھاڑی جا رہی ہیں۔ یہ چھوٹی اینٹ کی انتہائی خوبصورت عمارت ہے۔ ایک طرف فقیر کا مزار جہاں دن رات رونق، ایک طرف شہزادی کامقبرہ جہاں دن کو بھی الو بولتے ہیں۔

ہم یہاں سے لاہور کا تاریخی بریڈ لا ہال دیکھنے چلے گئے جو متروکہ وقف املاک (ہندو اوقاف) کی ملکیت میں ہے اور اپنی تباہی کا منتظر ہے۔ یہ تاریخی ہال لاہور کے ایک گورے ڈپٹی کمشنر ریٹی گن کے نام سے موسوم سڑک پر واقع ہے جس کے نزدیک ٹیپ روڈ (ایک اور گورا ڈپٹی کمشنر) اور بینک آف بنگال کی خوبصورت عمارت (جسے گھوڑا اسپتال بھی کہتے ہیں) اب یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کی لال اینٹ کی عمارت ہے۔ یہ وہ تاریخی ہال ہے، جہاں کہا جاتا ہے کہ قائداعظمؒ بھی ایک مرتبہ تشریف لائے تھے۔ یہ ہال ایک آئرش انجینئر بریڈ لا نے تعمیر کیا تھا جس نے ریلوے کی داغ بیل بھی ڈالی تھی۔ برصغیر کی کئی تحریکوں کا آغاز اس ہال سے ہوا۔ بھگت سنگھ کی تحریک، پگڑی سنبھال جٹا اور کئی دیگر تحریکوں نے بھی اسی ہال سے جنم لیا۔ برصغیر کی مشہور مغنیہ گوہر جان کے شو بھی یہاں ہوتے تھے۔ یہ تاریخی ہال حضرت علی ہجویریؒ کے مزار مبارک کے قریب ہی ہے۔ تحریک آزادی کے کئی جلسے یہاں ہوئے مگر اس تاریخی ہال کی حالت اب یہ ہے کہ اب گرا کہ تب گرا۔ کبھی اس کے ارد گرد بڑا وسیع میدان ہوتا تھا جو آہستہ آہستہ قبضہ مافیا کی نذر ہوگیا، ہال کے کچھ حصہ پر بھی لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اس ہال میں آج بھی ایک ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اگر حکومت ان تاریخی عمارتوں کو سنبھال نہیں سکتی تو پھر ان کی نیلامی کر دے۔ اس ہال کو کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے حوالے کر دے یا پھر شادی گھر بنا دے، کم از کم یہ مزید تباہ ہو نے سے تو بچ جائے گا۔ دنیا میں اس وقت سیاست کے اعتبار سے فرانس پہلے نمبر پر ہے جہاں سالانہ 89ملین سیاح آتے ہیں پھر اسپین (غرناطہ)، پھر امریکہ، پھر چین، پھر اٹلی، پھر ترکی، پھر جرمنی، پھر تھائی لینڈ اور نویں نمبر پر برطانیہ ہے۔ بھارت میں بھی کثیر تعداد میں تاریخی مقامات ہیں مگر ہمارے ہاں تو تاریخی عمارتوں پر مقامی لوگ ہی اپنے نام کندہ کر جاتے ہیں۔ اینٹیں اکھاڑ کر لے جاتے ہیں، نقش نگار خراب کر دیتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ تاریخی عمارتوں کو محفوظ کرنے کے لئے جو گرانٹ باہر کے ممالک سے آتی ہے اور حکومت بھی جو بجٹ دیتی ہے، وہ سب کہاں جاتا ہے۔ والڈ سٹی نے کروڑوں روپے خرچ کر دیئے مگر وہ نتائج سامنے نہیں آئے جو آنا چاہئے تھے۔ حکومت کو چاہئے کہ ایک محکمہ بنائے اور اس کے حوالے تمام تاریخی مقامات، عمارتیں اور باغات کر دے۔ اسی طرح لاہور کے 117سالہ تاریخی نیوٹن ہال کو بھی جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ یہ عمارت گر جائے اور یہاں پر اپنی مرضی سے کوئی نئی عمارت بنائی جائے کیونکہ نئی عمارت بنانے میں جو مخصوص فوائد ہوتے ہیں، وہ کسی عمارت کو مرمت کرنے میں کہاں؟ حالانکہ یہ تاریخی نیوٹن ہال جو نرسنگ ہوسٹل ہے، جس کی چھتیں لکڑی کے بالوں کی ہیں، تاریخی ورثہ قرار پا چکی ہے۔ یہ انتہائی خوبصورت عمارت ہے۔ اگر تاریخی عمارات کی حفاظت نہیں کر سکتے تو اس تاریخی ورثے کو نیلام کر دیں، چار پیسے ہی آ جائیں گے۔

تازہ ترین