• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

" ہر توڑ کا پکاجوڑ" ایک اشتہارکا جملہ جوکہ ہمارے ملک کے حالات پر پورا اترتا ہے بس ذرا ترمیم کے ساتھ "ہر مسئلہ کا پکاحل"،ملک میں کرپشن ایک بڑا مسئلہ ہے اور کرپشن لوگ کرتے ہیں تو اگر آبادی کو کنٹرول کیا جائے گا تو افراد کم ہوجائیں گے، یوں ملک میں کرپشن بھی کم ہوگی۔ (1)۔ساٹھ کی دہائی میں قومی بچت میں کمی ہوئی تو حل :غریبوں پر ٹیکس بڑھا دیا گیا اور امیروں پہ ٹیکس گھٹادیا گیا کہ یوں امیر بچت زیادہ کریں گے تو قومی بچت میں اضافہ ہوگا۔(2)۔ستر کی دہائی میں احساس ہوا کہ مزدوروں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور سرمایہ دار ان سے محنت کرواکر خود امیر ترین ہورہے ہیں لیکن محنت کش کو کچھ نہیں مل رہا ۔ مسئلہ کا حل نکالاکہ صنعتوں اور تمام نجی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا جائے۔ یوں مزدوروں کے مسائل میں کمی آئی یا نہیںمگر ملک میں سرمایہ کاری کی شرح کم ہوتی چلی گئی۔ بچتیںملک سے باہرمنتقل ہوتی رہیں۔ اور بے روزگاری میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتارہا۔ (3)۔پھراحساس ہوا کہ سندھ کے دیہی علاقے شہری علاقوں کے مقابلے میں بہت پسماندہ ہیں۔ اس پسماندگی کا حل یہ نکالا گیا کہ سندھ میں کوٹہ سسٹم رائج کردیاگیا۔ مگر 45 سال گزرنے کے باوجود دیہی علاقوں کی پسماندہ صورتحال میں کوئی بہتری نہ آسکی۔ بلکہ شہری علاقوں کے لوگ سرکاری نوکریوں سے دور ہوگئے۔ یوں شہری اور دیہی علاقوں کے بیچ دراڑپڑتی چلی گئی جسے ابھی تک مسئلہ نہیں سمجھا گیا۔ (4)۔ملک میں ٹارگٹ کلنگ ہونا شروع ہوئی اور جب زورپکڑگئی تو اس کا علاج" ڈبل سواری پہ پابندی" قرار پائی ۔ ذراسوچئے کہ قتل کرنے کی سزا پھانسی یا عمر قید ہے۔ قاتل کو اس کا خوف نہیں ہے۔ مگر ڈبل سواری پہ پابندی لگاکر وہ قتل کا ارادہ ترک کردے گا۔ جس کی سزا صرف تین ماہ قید ہے۔ (ہے نہ ہر توڑ کا پکاجوڑ)۔(5)۔بچہ اگر اسکول کے سوئمنگ پول میں گرکر ہلاک ہوگیا تو تمام اسکولوں کے سوئمنگ پول پر پابندی لگادی گئی۔ نہ سوئمنگ پول ہوگا نہ بچے ہلاک ہوں گے۔(6)۔اگر کسی تفریحی پارک میں جھولا گر جائے اور ہلاکت ہوجائے تو پورے پارک کو بند کردیا جاتا ہے ۔ تاکہ نہ جھولے چلیں نہ ہی کوئیحادثہ ہو۔(7)۔علاقوں میں اگر چوری اور ڈکیتیوں کی شرح بڑھ جائے تو اس کا علاج ہے کہ ہر گلی کے کنارے پر آئینی گیٹ لگالیے جائیں اور نجی ادارے سے غیرتربیت یافتہ گارڈ پہلی جنگ عظیم کے ناکارہ اسلحہ کے ساتھ حفاظت پہ معمور کردیئے جائیں۔(ہے نہ ہر توڑکا پکارجوڑ)۔ پولیس کا کام عوام کے جان ومال کی حفاظت تھوڑی ہی ہے۔(8)۔معصوم بچوں کے

ساتھ زیادتی کے کیس ہوں اور ان کی تعداد بڑھنے لگے تو ملزمان کو نشان عبرت بنانے سے زیادہ اہم حل یہ ہے بچوں کو نصابی کتابوں کے ذریعہ سکھایا جائے کہ وہ اپنے آپ کوکیسے محفوظ رکھیں، بڑوں کی تھوڑی ذمہ داری ہے انہیں محفوظ رکھنے کی۔(9)۔اگر شہر میں کچرے کے ڈھیر لگ جائیں تو انہیں ختم کرنے کے لیے کروڑوں روپے کے فنڈز کی ضرورت ہے۔ مگر اگر کوئی VIP کو آنا ہوتا ہے اور مخصوص مواقع پہ جلسہ جلوس نکلنا ہو تو بغیراضافی فنڈکے تمام کچرے کے ڈھیر ختم ہوجاتے ہیں اور چونے کا چھڑکاؤ بھی ہوجاتا ہے۔ (Where there is a will there is a way)اس انگریزی محاورہ کا مطلب اب سمجھ میں آیا۔ لیکن جب ارادہ ہی نہ ہو تو راستہ کیسے نکلے گا؟ یہی ہمارے ہر مسئلہ کی وجہ ہے۔ اسی لیے علاج بھی لاجواب تلاش کیا جاتا ہے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین