• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہونے کی جو نوید سنائی تھی، وفاقی مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے اعداد و شمار کی مدد سے اس کی تصدیق کی ہے۔ اتوار کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے قوم کو بتایا ہے کہ حکومت کے مشکل فیصلوں کے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں، کرنٹ خسارے میں 73فیصد کمی آگئی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں، روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے، ٹیکس فائلرز کی تعداد 6لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کی رجسٹریشن کے بعد 19لاکھ سے بڑھ کر 25لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ پچھلے مالی سال میں 509ارب روپے ٹیکس جمع ہوا تھا جبکہ رواں سال 580ارب روپے وصول کر لئے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بڑے کاروباری اداروں کے ساتھ ہیں لیکن ٹیکسوں کی وصولی پر کوئی سودے بازی نہیں کی جائے گی۔ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں اس سال جولائی میں برآمدات میں اضافہ جبکہ درآمدات میں کمی ہوئی، حکومتی اقدامات کے نتیجے میں بجلی کی چوری میں نمایاں کمی ہوئی جسے 100ارب روپے سے کم کرکے 10ارب روپے تک لایا گیا تاہم گردشی قرضوں میں ہر ماہ 38ارب روپے کا اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت نے اخراجات میں کمی کے لئے اسٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا اور گزشتہ دو ماہ میں کوئی ضمنی گرانٹ بھی جاری نہیں کی گئی۔ حکومت کی معاشی ٹیم کا یہ اعلان بھی حوصلہ افزا ہے کہ افراطِ زر کو زیادہ نہیں بڑھنے دیا جائے گا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت کو پریشان کن معاشی اشاریے ملے تھے، جن میں بہتری لانے کیلئے اسے فوری معاشی اصلاحات شروع کرنا پڑیں۔ سرکاری اخراجات کم اور دفاعی اخراجات منجمد کئے گئے۔ فی الوقت بڑھتی ہوئی مہنگائی اس کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے، اسے کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں جن کے نتائج برآمد ہونے میں کچھ عرصہ انتظار کرنا ہوگا لیکن اچھی بات یہ ہے کہ حکومتی مشینری کو صورتحال کا پوری طرح ادراک ہے۔ معاشی بحالی کے لئے مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے مزید بتایا کہ خسارے میں جانے والے 10اداروں کی نجکاری کا عمل تیزی سے جاری ہے جبکہ 20اداروں کی تشکیلِ نو ہو گی، بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں، نیشنل بینک اور اسٹیٹ لائف انشورنس کی نجکاری زیر غور ہے۔ آر ایل این جی پاور پلانٹس کی نجکاری سے 300ارب روپے جبکہ اسٹیٹ بینک کے منافع سے 400ارب روپے کی آمدنی ہوگی، اس طرح نان ٹیکس ریونیو کی مد میں مجموعی طور پر ایک ہزار ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اداروں کی نجکاری شفاف انداز میں ہوگی اور ملازمین کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔ حفیظ شیخ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ احتساب کا عمل اس طرح چلنا چاہئے کہ کاروبار پر اس کا منفی اثر نہ پڑے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ملک کی مجموعی آمدنی میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ٹیکسوں کی آمدنی صرف 11فیصد ہے جو دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔ اس میں اضافے کے لئے ضروری ہے کہ اصلاحات کے ذریعے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں کی ادائیگی کا نظام بھی آسان بنایا جائے، تنخواہ دار طبقے پر جتنا بھی ٹیکس لگا دیا جائے وہ اپنی تنخواہوں سے کٹوتی کرانے پر مجبور ہے مگر کاروباری طبقہ ٹیکسوں کی جوازیت اور شفافیت دونوں پر نظر رکھتا ہے، اس کے تحفظات دور ہونا چاہئیں۔ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچا ہے، وہ حکومت کو معاشی اصلاحات اور بجٹ اہداف کی تجویز دے گا۔ اس کی شرائط پر عوام کے مفاد کی روشنی میں غور ہونا چاہئے اور قرضوں کے بدلے اس کی غیر معقول تجاویز نہیں ماننا چاہئیں۔ ساتھ ہی اقتصادی شرح نمو بڑھانے پر توجہ دینا چاہئے تاکہ ٹیکس دہندگان کو دیئے گئے ٹیکسوں کے ثمرات زمین پر نظر آنے لگیں۔

تازہ ترین