• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یونیورسٹیاں اور کاروباری حلقے ترجیحات کا تعین کریں

اصل مسئلہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان قوم کے لئے ترجیحات کا تعین نہیں کر پا رہے۔

ان کی ٹیم میں بھی دو ایک کے سوا ایسے کھلاڑی ہی نہیں ہیں جو دور تک دیکھتے ہوں اور روڈ میپ بنا سکتے ہوں۔ ایک تو ٹویٹر نے ان سب کے ہاتھ پائوں باندھ دیئے ہیں۔ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا ہوتا، ٹویٹ ایک دو جاری ہو جاتے ہیں۔

کسی کو بھی گزشتہ پانچ چھ صدیاں ایک ساتھ گزرتے دیکھتا ہوں تو پاکستان اس کی بہترین تجربہ گاہ ہے۔ اِدھر اُدھر گھومنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں تو بیک وقت یہ سب کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ یہ ہماری قیادتوں کی مملکت کے اداروں کی بے بصیرتی اور ناکامی ہے۔ ایک سے دوسری صدی میں جو فاصلہ ہوتا ہے وہ آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ وہ پائوں کی زنجیر اور ہاتھوں میں کڑی بن جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم ایک سنگین صورتحال سے دوچار ہیں اور مشکل یہ ہے کہ ہماری قیادت ترجیحات کا تعین نہیں کر پا رہی۔ پہلے کیا کرنا ہے۔ اندرونی اور بیرونی خطرات ہمیں للکار رہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسیوں نے خطّے میں ایک بحران پیدا کر دیا ہے۔ انسانی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے ہنگامی صورتحال ہے۔ خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان سمیت سب ملکوں کی قیادتیں صورتحال بدلنے میں بے بس نظر آتی ہیں۔ علاقے کے چھوٹے ملکوں کے درمیان دوریاں ہیں اس لئے وہ بھارت کے خلاف متحد نہیں ہو سکتے۔ پاکستان پہلے یہ کوشش کیا کرتا تھا، اب اس کی قیادت بھی اس طرف توجہ نہیں دے رہی۔

حکومت کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ حکومتی قائدین ہوں یا اپوزیشن کے، سب اپنی اپنی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں۔ اپنے ذہن سے نہیں سوچ سکتے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھی کوئی مدد حاصل نہیں کر سکتے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب معاشرے آگے آتے ہیں۔ ان کے ہاتھ یا پائوں بندھے نہیں ہوتے۔ یونیورسٹیاں شہر شہر کھل رہی ہیں۔ طلباء و طالبات کی طاقت ہے۔ اساتذہ کے پاس علم بھی ہے تجربہ بھی۔ دانش بھی۔ اہل دانش ہوں یا اہل تجارت، دونوں مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اپنی حکمت عملی بناتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں غیر جانبدارانہ تحقیق ہوتی ہے۔ صنعت و تجارت کے ادارے بھی ایسی تحقیق کرتے ہیں۔ فیڈریشن کے سامنے دوسرے ملکوں کے تجربات ہوتے ہیں۔ کس طرح بیمار صنعتیں بحال ہوئیں۔ اسی طرح یونیورسٹیوں کے پیش نظر بھی دوسری دنیائوں کے عملی انقلابات ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ ان دونوں اداروں نے مشترکہ قدم اٹھائے اور اپنے ملکوں کو بحران سے نکالا ہے۔ قوم کے سامنے منصوبے پیش کئے ہیں۔ ترجیحات کا تعین کیا ہے۔ قوم کی معاونت کی ہے۔ حکمرانوں کی رہنمائی کی ہے۔ تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ پارلیمنٹ میں ایسے عناصر نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ کے مباحث کا بغور جائزہ لیں تو ترجیحات کے تعین کے لئے کوئی سنجیدہ گفتگو کسی کی طرف سے نظر نہیں آتی۔ پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اپنے اپنے دَور کے معجزوں کے گن گاتے ہیں۔ پی ٹی آئی ان کو کرپشن کے طعنے دیتی ہے۔ حکومت اپوزیشن ماضی میں ہی گم رہتے ہیں۔ جسے کوئی نہیں بدل سکتا۔ مستقبل بیچارہ دیکھتا رہتا ہے کہ اس سے بھی کوئی ہمکلام ہو۔

کاش ایسا ہو سکے کہ صنعتکاروں، تاجروں کی انجمن فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری آگے بڑھے کیونکہ سب سے زیادہ مسائل کا سامنا اس وقت اسے ہے۔ اس کے ممبرز، کارخانے دار اور ایکسپورٹرز کو مقامی اور بین الاقوامی معاملات درپیش ہیں۔ صنعتی علاقوں کی سڑکیں انتہائی خراب ہیں۔ برآمدات جس تیزی کا تقاضا کرتی ہیں وہ یہ ناہموار راستے روک دیتے ہیں۔ بجلی گیس پہلے سے زیادہ مہنگی ہیں۔ ڈالر کے مہنگے ہونے سے ایکسپورٹرز کو جو فائدہ مل سکتا ہے وہ مقامی انتظامی حالات حاصل نہیں ہونے دیتے۔ فیڈریشن والے روایتی انداز میں میٹنگیں کرتے ہیں۔ انفرادی طور پر بعض صنعتکار تعلقات سے کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔ اجتماعی طور پر فیڈریشن کا جو دبائو ہونا چاہئے وہ نظر نہیں آتا۔

میرے خیال میں فیڈریشن کو چاہئے کہ وہ یونیورسٹیوں، سرکاری اور پرائیویٹ کے وائس چانسلرز اور خاص طور پر اکنامکس کے اساتذہ کے ساتھ ایک میراتھن میٹنگ کرے۔ یونیورسٹیاں حالات و واقعات اور حقائق کا غیر جانبدارانہ جائزہ لے کر مقالات تدوین کرتی ہیں۔ جبکہ سرکاری ادارے، پلاننگ کمیشن تو وہی رپورٹ مرتب کرتے ہیں جو حکومت سننا چاہتی ہے۔ یونیورسٹیاں حقیقت پر مبنی Thesisتیار کر سکتی ہیں۔ صنعتی و کاروباری حلقے ان پر عمل کر سکتے ہیں۔ ان کی روشنی میں حکومت کو اپنی پالیسیاں تشکیل دینے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ میڈیا بھی بزنس کا ہی حصّہ ہے۔ میڈیا کو اگر اپنی بقا منظور ہے تو وہ سیاست سیاست کھیلنے کے بجائے بزنس اور یونیورسٹی کے اشتراک کی آواز بنے۔ یہ دونوں مل کر ملک کے لئے وہ ترجیحات مرتب کر سکتے ہیں جس سے ملک اندرونی بیرونی بحرانوں سے سرخرو ہوکر نکل سکتا ہے۔ اکیسویں صدی میں جذبات اور نعروں سے نہیں، مضبوط معیشت اور واضح روڈ میپ سے زندہ رہا جا سکتا ہے۔

جب انفرادی قیادت کمزور ہو تو اجتماعی قیادت کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ یونیورسٹیاں اور کاروباری حلقے اپنی خودی تو پہچانیں، ایک تجربہ کرکے دیکھیں۔

تازہ ترین