• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کی سول سروس ایسے بڑے اصلاحاتی عمل کی طرف پیش قدمی کرتی محسوس ہورہی ہے جس سے حکومتی فیصلوں اور اقدامات کے نتائج جلد سامنے آنے کی توقع ہے۔ وفاقی کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں حکومت کے تربیتی اور کارکردگی کے مینجمنٹ سسٹم میں جن تبدیلیوں کی منظوری دی گئی ان سے یہ توقع بے محل نہیں کہ حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد کا شعبہ زیادہ فعال و سرگرم نظر آئے گا۔ سول سروس میں اصلاحات کا جو ڈھانچہ ڈاکٹر عشرت حسین کی زیر قیادت ریفارم باڈی نے تیار کیا اس کا مقصد موجودہ نظام کی خامیوں پر قابو پانا، کیریئر میں آگے بڑھنے کے مواقع، معاوضے وغیرہ کے معاملات میں اعلیٰ ترین اور دیگر سروسز کی تفریق ختم کرکے انہیں مساوی سطح پر لانا ہے۔ باخبر ذرائع کابینہ کی طرف سے منظور کردہ دو سمریوں میں شامل تجاویز کے جن نکات کی نشاندہی کرتے ہیں ان میں اسپیشلسٹ ماہرین کو عمومی ماہرین کے مقابلے میں سول سروس آف پاکستان کا حصہ بنانے کے نکات بھی شامل ہیں جبکہ ایک فیصلے کے تحت وزیراعظم ہر وزیر کے ساتھ کارکردگی کے حوالے سے معاہدہ کریں گے جس میں مخصوص اہداف اور مقاصد کی نشاندہی کی جائے گی اور ان پر وقتاً فوقتاً غور کیا جائے گا۔ وزیر کے ماتحت کام کرنے والے افسران کی کارکردگی کے بھی اہداف طے کئے جائیں گے اور ان کا نتیجہ اسی معاہدے کے تحت اخذ کیا جائے گا۔ جائزہ لینے کا طریقہ یہ ہوگا کہ ایک سال کے لئے افسر اور نگراں (سپروائزر) کے درمیان مقاصد/ اہداف پر اتفاق ہوگا اور بعدازاں کارکردگی کے اہم اشاریوں کی تصدیق کی جائے گی تاکہ طے شدہ اہداف کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کا تعین کیا جاسکے۔ اسکیم کی دستاویز سے واضح ہے کہ جائزےکے لئے معروضی طریقہ اختیار کیا جائے گا جسے Key Performance Indicator Based System کہا جائے گا۔ فی الوقت افسران کی اکثریت کو شاندار کیٹگری میں رکھا جاتا ہے جبکہ مجوزہ رینکنگ کے تحت اعلیٰ کارکردگی میں 20فیصد سرفہرست افراد کو اس کیٹگری میں رکھا جائے گا۔ اس طرح غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں اور دیگر میں تفریق کی جائے گی۔ مجوزہ اصلاحات کے حوالے سے سامنے آنے والی تجاویز میں سرکاری ملازمین کی استعداد میں اضافے اور تربیت کے طریق کار سمیت خاصی جزئیات و تفصیلات کا احاطہ کیا گیا ہے جن پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں تقرریوں اور ترقیوں کا انحصار اربابِ حکومت کی ذاتی پسند و ناپسند پر نہیں میرٹ پر ہوگا۔ یہ بات بہرطور ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ہماری بیورو کریسی کا کردار برٹش ایمپائر کی تخلیق کردہ اس نوکر شاہی کے کردار سے مختلف ہو جو مقبوضہ ممالک میں نوآبادیاتی ضرورتوں کے لئے تشکیل دیا گیا۔ برطانیہ نے خود اپنے ملک میں بیورو کریسی کا جو نظام رائج کیا وہ نوآبادیات میں رائج نظام سے یکسر مختلف، آزاد ملک کے باشندوں کے احترام پر مبنی اور خدمت کے تصور پر استوار ہے۔ وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز میں بھی بیورو کریسی کے ان طور طریقوں میں تبدیلی لائی جائے جنہیں بہت پہلے تبدیل ہوجانا چاہئے تھا۔ آزادی کی سات دہائیاں گزرنے کے بعد پاکستانی عوام کا یہ حق تو بنتا ہے کہ اعلیٰ سرکاری افسران کے بند دروازے ان کے لئے کھولے جائیں، افسران اور اہلکاروں کو عام لوگوں سے محبت کرنا سکھایا جائے، سرخ فیتے کی لعنت سے چھٹکارا پایا جائے اور تقابل کا معیار یہ ہو کہ ان میں سے کون عوام کی زیادہ خدمت کرتا اور قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے ان کا دل جیتتا ہے۔ ہمیں اپنی بیورو کریسی کو دور غلامی کے کردار سے باہر نکال کر ایک آزاد و خودمختار ملک کی بیورو کریسی میں تبدیل کرنا ہے۔

تازہ ترین