• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پیدائشی طور پر ساز اور سنگیت کا رسیا ہوں۔ کہتے ہیں کہ جب میں پیدا ہوا تھا، یعنی اس دنیا میں آیا تھا، اس دنیا میں آنے کے بعد میں نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ میں سُر میں رویا تھا۔ اس وقت پڑوس کا گَویا وہاں موجود تھا۔ اس نے گواہی دی تھی کہ میں سُر بھیرویں میں رویا تھا۔ دائی ماں کا نام تھا رام پیاری۔ دائی ماں نے میرے والد اور والدہ کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا تھا ’’بدھائی ہو۔ آپ کے یہاں تان سین پیدا ہوئے ہیں۔‘‘

دائی ماں رام پیاری بہت پیاری دائی ماں تھیں۔ ایک روز اللہ سائیں کو پیار ی ہو گئیں۔ میری والدہ بھی بہت پیاری والدہ تھیں۔ وہ بھی اللہ سائیں کو پیاری ہو گئیں۔ میرے والد بھی بڑے پیارے والد ہوتے تھے۔ وہ بھی اللہ سائیں کو پیارے ہو گئے۔ میں یتیم ہو گیا میرے ماموں نے مجھے گود لیا، مگر انہوں نے کبھی بھی مجھے اپنی گود میں نہیں بٹھایا۔ ماموں نے ابو کی جائیداد اور املاک پر قبضہ کر لیا۔ ماموں چونکہ قانون کے دائو پیچ جانتے تھے، انہوں نے قانونی طور پر مجھے ورثے میں ملنے والی املاک اپنے نام کروالی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میرے ماموں میرے محاورہ بند ماموں بن بیٹھے۔ میری زندگی کے ہر پہلو پر اپنا عمل دخل استعمال کرنے لگے۔ اس رویے کو ماموں بنانا کہتے ہیں۔ میرے جیسے ہر بونگے اور بیوقوف کی زندگی میں ایک محاورہ بند ماموں ہوتا ہے جو ہمیں ماموں بناتا رہتا ہے۔ ماموں بنانے کا مطلب ہے بیوقوف بنانا، اُلّو بنانا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ محاورہ بند ماموں ہمارا سگا ماموں ہو۔ ہر وہ شخص جو بد قسمتی سے ہماری زندگی میں چونچ مارنے کا حق ہتھیا لیتا ہے۔ ہمارا محاورہ بند ماموں بن بیٹھتا ہے۔ آپ کا چاہے کسی بھی قسم کی ہنر مندی سے تعلق ہو، ماموں آپ کے کام میں چونچ مارنے کو تیار بیٹھے ہوں گے۔ اگر آپ شاعر ہیں تو ماموں آپ کی اصلاح کریں گے۔ وہ آپ کو قافیہ ردیف کے بارے میں مشورہ دیں گے۔ اگر آپ غالب، رزق یا مومن کے اشعار اپنے لکھے ہوئے اشعار بناکر ماموں کو دکھائیں گے، تو ماموں غالب، رزق اور مومن کے اشعار کی اصلاح کرنے بیٹھ جائینگے۔

اگر آپ افسانہ نگارہیں، تو پھر ماموں آپ کو بتائیں گے کہ افسانہ کیسے لکھا جاتا ہے۔ اگر آپ گویے ہیں تو پھر ماموں آپ کو سرتال کے بارے میں بتائیں گے۔ اگر آپ کھانا پکانے کا ہنر جانتے ہیں اور بدقسمتی سے ماموں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ تو پھر ماموں آپ کو بتائیں گے کہ انڈا کیسے اُبالا جاتا ہے۔ اگر آپ پروفیسر ہیں اور فزکس یا کیمسٹری، تاریخ یا جغرافیہ پڑھاتے ہیں تو پھر ماموں آپ کو بتائیں گے۔ فزکس سے بم اور کیمسٹری سے تیزاب کیسے بناتے ہیں۔ تاریخ اور جغرافیہ میں کون سے اسباق کب اور کیوں پڑھانے چاہئیں اور کب پڑھانے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ یہ سب باتیں ماموں جانتے ہیں۔ ماموں کو اگر پتہ چل جائے کہ سیاست آپ کا اُوڑھنا بچھونا ہے تو پھر فوراً سے پیشتر ماموں آپ کے پاس پہنچ جائیں گے۔ اور آپ کو مشوروں سے نوازیں گے کہ آپ کس پارٹی کو چھوڑ دیں۔ کس پارٹی سے شامل ہونے کا وعدہ کریں اور آخر کار کس پارٹی میں شامل ہو جائیں۔

کاش دائی ماں رام پیاری اللہ سائیں کو پیاری نہ ہوتیں اور زندہ ہوتیں، تب محسوس کرتیں کہ میں تان سین نہیں تھا۔ بلکہ نان سینس Nonsenseتھا۔ یہاں اتنا ضرور تھا کہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن والے کورس گانے میں تان لگانے کے لئے مجھے بلاتے تھے اور ریکارڈنگ کے دوران تان لگواتے تھے۔ پروڈیوسرز کی میں نے منتیں کیں انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ میں تان سین ہوں۔ آپ مجھ سے صرف تان لگواتے ہیں۔ کسی روز آپ مجھے قومی نغمہ گانے کا موقع دیں۔ میں پوری قوم کو ملی جذبے سے سرشار کر دوں گا۔ تب آپ محسوس کریں گے کہ میں تان لگانے والا نہیں ہوں۔ میں تان سین ہوں۔ مگر میری بات کسی پروڈیوسر نے نہیں سنی۔ ایک روز میں مایوس ہوکر، سر جھکائے براڈ کاسٹنگ ہائوس سے باہر نکل رہا تھا کہ ایک نائب قاصد دوڑتے ہوئے آیا۔ مجھے اس نے روکا، اور کہا۔ ’’تان سین، تمہیں میڈم نے بلایا ہے‘‘۔

و ہ میڈم سینئر پروڈیوسر تھیں۔ میں ہاتھ جوڑ کر ان کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ میڈم نے کہا ’’تان سین، تم تان بہت اچھی لگاتے ہو‘‘۔

میری مرجھائی ہوئی باچھیں کھل گئیں۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، میڈم نے کہا۔ ’’جو گائیک تان لگا سکتا ہے، وہ گائیک آلاپ بھی لگا سکتا ہے‘‘۔

’’یہ ہوئی نا بات!‘‘ خوشی سے بےقابو ہوتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’تھینک یو میڈم۔ میں جانتا تھا، ایک روز میری محنت رنگ لائے گی۔ مجھے ملی نغمہ گانے کا موقع ملے گا۔ تھینک یو میڈم۔‘‘

’’ارے بھئی ذرا رکو‘‘ میڈم نے کہا ۔ ’’پہلے میری پوری بات تو سن لو۔‘‘

’’پہلے آپ میرے ملی نغمہ کا مکھڑا سن لیجئے یہ ملی نغمہ میں نے لکھا ہے۔ اور اس کی دُھن میں نے راگ درباری میں بنائی ہے۔ آپ سنیے‘‘ میں نے کان پر ہاتھ رکھا۔ تان سین کا نام لے کر میں نے تان لگائی۔ ’’سب ٹھیک ہے۔ سب ٹھیک ہے سب ٹھیک ہے۔ سب ٹھیک ہے۔‘‘تب میڈم نے اونچی آواز میں کہا۔ ’’تان سین، میری بات سنو۔‘‘

کان سے ہاتھ ہٹا کر میں خاموش ہو گیا۔ میڈم نے پوچھا ’’بیروزگار ہو؟‘‘میں نے کہا ۔’’جی ہاں۔‘‘

’’ہمارے محلہ میں چوکیدار کی جگہ خالی ہے‘‘ میڈم نے پوچھا۔ ’’چوکیداری کرو گے؟‘‘

میں نے مایوس ہوتے ہوئے کہا۔ ’’جی ہاں۔ کروں گا۔‘‘میڈم نے کہا۔ ’’تمہیں رات بھر محلہ کی گلیوں میں گھوم کر آلاپ لگانا ہو گا۔ کرسکو گے یہ کام؟‘‘

میں نے کان پر ہاتھ رکھا، اور آلاپ لگایا۔ ’’جاگتے رہو۔‘‘

’’نہیں نہیں۔‘‘ میڈم نے مجھے روکا اور کہا ’’جاگو گے تم۔ ہم محلہ والے سوئیں گے۔ تم راگ درباری والا آلاپ لگانا۔ سب ٹھیک ہے۔ سب ٹھیک ہے۔‘‘

میں نے کان پر ہاتھ رکھا اور آلاپ لگایا۔ ’’سوتے رہو۔ سب ٹھیک ہے۔ سوتے رہو۔ سب ٹھیک ہے‘‘۔ میڈم نے کہا’’چلے گا۔‘‘

تازہ ترین